بچوں کو دیکھ بھال کے لیے بچے بازوں کے حوالے کیا جاتا رہا


ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’کینٹلر پراجیکٹ‘ نامی ایک منصوبے کے تحت ماضی میں بے گھر بچوں کو پرورش اور دیکھ بھال کے لیے ’پیڈوفائلز‘ یا بچے بازوں کے حوالے کیا جاتا رہا اور یہ عمل کئی دہائیوں تک جاری رہا۔

محض تجربے کے طور پر شروع ہونے والا یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ برلن میں منظر عام پر آنے والی ایک مطالعاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ نیٹ ورک مغربی برلن میں بھی پایا جاتا تھا۔ یہ مطالعہ برلن اسٹیٹ کی طرف سے جرمن صوبے لوئر سکسنی کے شہر ہلڈشہائم کی یونیورسٹی کو تحقیق کے لیے دیے گئے ایک پروجیکٹ کے تحت کرایا گیا۔ اس مطالعے کی حتمی رپورٹ سے حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

افغانستان میں ’بچہ بازی‘ اور طالبان کی مقبولیت

افغانستان کے کئی طاقتور جنگی سردار، کمانڈر، سیاستدان اور امراء اپنے اثرو رسوخ اور دولت مندی کے اظہار کے لیے اکثر اوقات اپنے ساتھ کسی ’بچے‘ کو رکھتے ہی۔ طالبان اس کے مخالف ہیں اور اسی مخالفت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ( 19.12.2016 )

کینٹلر ایکسپیریمنٹ کیا تھا؟

ہیلموٹ کینٹلر معروف جرمن ماہر نفسیات و جنسی امور ہونے کے ساتھ ساتھ ہنوور یونیورسٹی کے معاشرتی تعلیم کے پروفیسر بھی تھے۔ 1928 ء میں شہر کولون میں پیدا ہونے والے کینٹلر کا انتقال 2008 ء میں ہنوور میں ہوا۔ ہیلموٹ کینٹلر کے نظریات کو ’پیڈوسیکسوالٹی‘ کے تناظر میں انتہائی متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بچوں کی پرورش کے لیے انہیں بچے بازوں کے حوالے کرنے کے عمل کی حمایت کی بلکہ ان کی تحقیق میں بچے بازی کے عمل کو غیر نقصان دہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔

برلن کی سینیٹ نے اس متنازعہ محقق کے کاموں کے معاشرے پر اثرات، خاص طور سے 1960 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں بچوں اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی خدمات انجام دینے والے اداروں میں پائے جانے والے اثرات اور اس کے نتائج کا مطالعہ کرایا۔

پیڈوفائل پوزیشن کا دفاع

تازہ مطالعہ کے مطابق سابقہ ​​مغربی برلن میں بچوں اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی ایجنسی رضاعی بچوں کے ساتھ سرکاری جگہوں پر ہونے والی جنسی زیادتی کے معاملات میں ثالثی کی ذمہ دار تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1970ء کے عشرے میں انتظامیہ میں نوجوانوں کے لیے ذمہ دار اور انفرادی طور پر برلن کے ضلعی یوتھ فلاحی دفاتر میں ایک نیٹ ورک موجود تھا، جس میں پیڈوفائلز یا بچے بازوں کو باقاعدہ عہدوں رکھا گیا تھا۔

ان میں ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ریسرچ، فری یونیورسٹی اور پیڈیگوجیکل سیمینار گوٹینگن کا تذکرہ شامل ہے۔ برلن کے پیڈگوجیکل سینٹر، جہاں کنٹلر نے کام کیا تھا، اور صوبے ہیسے میں واقع اوڈن والڈ اسکول کے مابین رابطوں کی واضح نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اوڈن والڈ اسکول، بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد 2015 ء میں بند کر دیا گیا تھا۔

اس تجربے میں طاقت ور اور بارسوخ افراد شریک

’کینٹلر تجربے‘ کے ایک حصے کے طور پر نوعمروں کو جان بوجھ کر پیڈوفائل مردوں کے حوالے کیا جاتا تھا۔ کینٹلر نے اس منصوبے کا جواز یہ پیش کیا کہ نوجوان مردوں کے اثر و رسوخ میں پروان چڑھنے والے بچے معاشرتی طور پر مستحکم بن سکتے ہیں۔ گزشتہ سال کی ایک عبوری رپورٹ کے مطابق یہ سلسلہ 1960 ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا اور 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں ختم ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ’فوسٹر ہومز میں بعض اوقات سائنسی، تحقیقی اداروں اور دیگر تعلیمی پس منظر والے طاقت ور حضرات بھی شامل تھے، جو بچے بازی کے فعل کی وکالت کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کے بہبود کے دفاتر اور سینیٹ انتظامیہ کے چند ملازمین بھی اس نیٹ ورک کا حصہ تھے اور مردوں اور بچوں کی بچے بازوں تک رسائی کا ذریعہ بنتے تھے۔

متاثرین میں سے دو اب برلن کے ضلعے ٹیمپل ہوف شونیبرگ کی انتظامیہ سے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مقدمات برسوں سے چل رہے ہیں۔

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments