کرونا کا خوف حقائق کی روشنی میں


اس وقت کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہر بندہ حواس باختہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ تمام افراد جو اس کا مذاق اڑاتے تھے یا اس کا سرے سے ہی انکار کرتے تھے ان کے ارد گرد بھی اب اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا تو پہلے دن سے ہی اس کی ہولناکی کے حوالے سے ہمیں گاہے بگاہے خبردار کر رہے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں، میرے خیال میں اتنا کر رہے ہیں کہ دنیا میں اس کے علاوہ رونے کو کچھ باقی ہی نہیں بچا۔

خیر۔ ۔ ۔

( ڈبلیو ایچ او ) میں نے سوچا کہ اس سب میں کچھ حقائق اکٹھے کیے جائیں اور ڈرا جائے اور دوسروں کو بھی ڈرایا جائے۔ اور حقائق بھی عالمی دنیا کے سب سے بڑے اور مستند ادارے ڈبلیو ایچ او سے لے کر کچھ حقائق کی بنا پر تجزیہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

جنوری 26 سے آج 15 جون تک اس وبا کو پھوٹے پورے 139 دن گزر چکے ہیں اور اس میں جانے والی جانیں 4 لاکھ 37 ہزار 52 ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ 3144 افراد روزانہ دنیا میں اس وائرس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اور اگر انھیں ملک پر تقسیم کریں تو 15 افراد ملک کی سطح پر مر رہے ہیں۔

اور آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ 2017 کے حقائق کے مطابق دنیا میں ہر روز مرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 53 ہزار 424 تھی۔ اور اس وقت کرونا کے مریض دنیا کی آبادی کے تناسب سے 0.1035 ہیں جس کا مطلب ہے کہ کل آبادی کے 1 % افراد بھی ابھی تک اس میں مبتلا نہیں ہوئے۔

میری ناقص رائے میں اس کو اتنا ہیجان دینے کی وجہ سے باقی تمام بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی اموات اگر کل کو کبھی نکالی گئیں تو ان کی تعداد زیادہ نکلے گی۔ کیوں کہ اس وقت نہ ہی سرکاری اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ ہسپتال کسی مریض پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔ اور کچھ مریض کے گھر والے خوف میں مبتلا ہیں اور ہسپتال ہی نہیں لے کر جا رہے۔ کیا یہ باقی تمام مریضوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟ خصوصاً ان افراد کے ساتھ جو کسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں؟

کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہ ایسا اس لئے ہے اور ایسا اس لئے ہے۔ ایک سمجھدار بھائی تو اس مثال سے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں گے۔ یا یوں کہہ لیں کہ خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ پتہ نہیں بھائی کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہم تو ٹھہرے سادے سے بندے۔

ہاں ایک کیلکولیشن نے مجھے واقعی حیران اور پریشان کیا ہے۔ وہ یہ کہ اب تک شروع کے 20 ممالک نے 8 کروڑ 14 لاکھ 9 ہزار 135 کرونا کے ٹیسٹس کیے ہیں۔ اگر ایک ٹیسٹ پاکستانی 2000 کا بھی ہو تو یہ مالیت 1 کھرب 62 ارب 83 کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار روپے بنتے ہیں۔ ابھی یہ شروع کے 20 ممالک کا ڈیٹا ہے اسے 215 پر ممالک پر لے جائیں اور اسے ابھی آگے جانا ہے۔

ابھی ویکسین نے آنا ہے اور اسی طرح اگر 1 ارب آبادی کو بھی ویکسین لگانا پڑ گئی تو اس کی مالیت کہاں جاتی ہے۔ یعنی سرمایہ دار اگلا میدان اور ہدف صحت کو بنا رہا ہے یا بنائے گا۔

اس سب تجزیہ کا آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ تھوڑا مطمئن ہوں اپنی صحت اور خصوصاً اپنے مدافعاتی نظام پر توجہ دیں کہ اگر وہ مضبوط ہے تو انشاء اللہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور ان فگرز اور ڈیٹا کے کھیل سے باہر آکر احتیاطی تدابیر اپنا کر نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کریں اور باقی افراد کو بھی اس خوف سے باہر نکالیں کیوں کہ دنیا کے اس وقت بہت گمبھیر مسائل ہیں۔
اپنا خیال رکھیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments