ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے


اس تحریر سے میں ایسا آسان راز بتانے جا رہا ہوں۔ جس کے بعد باقی تمام زندگی آپ ہر لمحے خوش رہ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی ایک انسان ایسا نہیں ہے جسے دکھ، درد اور تکلیف میں رہنا پسند ہو۔ دنیا کا ہر انسان خوش و خرم رہنا چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کی کسی تعلیمی درسگاہ میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ انسان کیسے ہمیشہ خوش رہ سکتا ہے؟ سوچیں آپ کے پاس بے تحاشا دولت ہے، گاڑیاں اور بنگلے ہیں۔ لیکن آپ خوش نہیں ہیں؟

کیا اس سے بڑا کوئی اور مسئلہ ہو سکتا ہے؟ کہ سب کچھ ہے خوشی نہیں ہے؟ کچھ ہو نہ ہو لیکن اگر انسان خوش ہے تو زندگی انجوائے کرنے کا سب سے بڑا آرٹ یہی ہے۔ ہم کیا انسان ہیں جنہیں خوش رہنے اور خوشی کا اظہار کرنے میں بھی ڈر لگتا ہے۔ یاد رکھیں اس دنیا کو پرمسرت اور خوش رہنے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔ یہاں پہلے ہی بہت دکھ اور تکالیف ہیں۔ ایسے خوش رہیں جیسے بچے خوشی کو انجوائے کرتے ہیں۔ ہمارا ایشو یہ ہے کہ ہم صرف ایک دوسرے میں اچھائی برائی تلاش کرتے ہیں، ایک دوسرے میں کمیاں نکالتے رہتے ہیں، اس لئے دکھی رہتے ہیں؟

جو اچھا ہو رہا ہے ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتا، جو برا نظر آ رہا ہے وہ دکھائی دیتا ہے، اس لئے ہم دکھی ہیں؟ ہمارا ایشو یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت سب کچھ منفی دکھائی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ہمارا دماغ گندگی کی وہ آماجگاہ ہے جہاں صرف ہمیشہ منفی سوچ غالب رہتی ہے۔ دھیان سے انسانوں کو دیکھیں یہ معصوم ہیں، یہ سب خوش رہنا چاہتے ہیں۔ یہ خوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں ہر انسان میں دل ہے قاتل میں بھی دل ہے، یہ بیچارے مجبوریوں کی وجہ سے دکھی ہیں۔

انسان برا نہیں ہوتا۔ انسان کو دیکھنے کے لئے دیکھنے والی نظر چاہیے۔ مسئلہ انسانی سوچ کا ہے جو غلیظ ہے؟ ایک دن ہم میں سے کوئی انسان سب کو جپھی کرنا شروع کردے پھر دیکھے کس طرح کا احساس ہوتاہے؟ ہم تو کسی کو جپھی ڈالنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ دنیا جیسی تھی ویسی ہی رہے گی، یہ کبھی ہماری سوچ کے مطابق پرفیکٹ نہیں ہونے والی۔ کیا پاگل پن ہے کہ ہم میں سے ہر ایک انسان اپنے آپ کو دکھی دکھانے کی ریس میں لگا ہوا ہے۔ دکھ کو پھر ہم شیئر کرتے ہیں، دکھ شیئر کرنے سے بھی بڑھتا ہے۔

یاد رکھیں خوشی اور پرمسرت والی حالت فطری ہے اور دکھ کی کیفیت مصنوعی۔ لیکن ہمارا حال الٹا ہے ہم بہت زیادہ وقت دکھی اور بہت ہی کم وقت خوش رہتے ہیں۔ ۔ ۔ زندگی جینے کے دو طریقے ہیں۔ ایک اپنے آپ کو دنیا سے الگ سمجھنا۔ میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، میں نے اپنی زندگی دنیا اور فطرت سے الگ اور مختلف انداز میں گزارنی ہے۔ ۔ جب تک انسان میں میں کہتا رہے گا تو دکھی رہ گا؟ یہ درست بات ہے کہ ہر ایک انسان کا الگ الگ ٹیلنٹ ہے، سب اپنا اپنا کام کر رہے ہیں لیکن تمام انسانوں کی باڈی ایک جیسی ہے۔

سب کے دکھ سانجھے ہیں۔ درخت، پودے، پرندے، آسمان، پانی، میں، وہ، خدا، زندگی سب ایک ہیں۔ یہی سچ ہے، اس سچ کو سمجھیں گے تو ہم ہمیشہ خوش رہ سکتے ہیں۔ کائنات کو محسوس کریں اپنے آپ کو اس سے جڑا دیکھیں گے۔ یہ سانس جو ہم لیتے ہیں یہ درختوں کی مرہون منت ہے۔ ۔ ۔ درخت، پرندے، جانور، انسان سب ایک ہیں۔ یہ احساس سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو فطرت سے جڑ گیا وہ مکمل زندگی ہے وہی خوشی سے مزین زندگی ہے۔ ہم انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم فطرت سے دور ہو گئے ہیں، خوش رہنا ہے تو فطرت سے جڑ جائیے۔

کیا کبھی ہم نے پتوں کی سنسناہٹ محسوس کی، پھول کو ہاتھ لگا کر محسوس کیا، محسوس کریں اس پھول کے احساس کو ۔ سوچیں انسان کی زندگی کو پانی سے محروم کر دیا جائے تو اس کی کیا اوقات رہ جائے گی۔ پودے اگر آکسیجن خارج نہ کریں تو کیا انسان سانس لے سکتا ہے۔ فطرت ہی کی وجہ سے انسان کی سانسیں چل رہی ہیں۔ کیا ہم اس فطرت سے محبت کرتے ہیں جس سے ہماری سانسیں چل رہی ہیں۔ خوش رہنے کا پہلا احساس پہلا قدم یہ ہے کہ فطرت سے جڑ جائیے۔

فطرت، انسان، خدا یہ الگ الگ نہیں ایک ہے۔ سب مجھ میں ہے اور میں اس سے ہوں۔ اگر اس کائنات میں زندگی نہ ہو کائنات کس کام کی اور اگر زندگی ہو اور کائنات نہ ہو تو زندگی کس کام کی۔ سمجھیں اس بات کو ۔ یاد رکھیں فطرت سے ہمارا کنیکشن ہے تو خوشی اور محبت کی مستقل حالت میں رہیں گے فطرت سے ڈس کنیکشن ہے تو پھر ہم ایسے ہی دکھ کی کیفیت میں رہیں گے۔ دوسرے انسانوں کو الگ مت سمجھیں۔ دوسروں کو سمجھیں کہ آپ ہی ہیں۔

دوسرے کے احساس کو اپنا احساس سمجھیں۔ ایسا ہوگا تو پھر کیسی ڈپریشن کہاں کی سٹریس، پھر پیار اور خوشی ہی کا احساس ہوگا۔ انسان اور کوے میں زندگی ایک ہے بس دونوں کا جسم مختلف ہے۔ دونوں کا زندگی کا اظہار مختلف ہے۔ لفظ میں کچھ نہیں یہ جھوٹ ہے اس جھوٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ زندگی سمجھنے کا کھیل ہے۔ سب سے پہلے انسان کی شناخت زندگی ہے۔ وہ زندگی جو ایک ہے جو کائنات ہے، جو رب ہے جو میں ہوں جو توں ہے۔ ۔ ۔ اس کائنات میں کوئی بھی انسان کہیں خوش ہورہا ہے، وہ میں ہوں۔ اس کائنات میں کوئی پرندہ چہچہا رہا ہے وہ میں ہوں وہ زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments