کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز پر بم حملے، تین ہلاک، 10 زخمی


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں احساس پروگرام کے سینٹر کے باہر دستی بم حملے میں ایک شخص ہلاک اور رینجرز کے اہلکار سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

یہ واقعہ جمعے کے روز سوا گیارہ بجے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں انجمن اسلامیہ سکول کے قریب پیش آیا۔ ہولیس افسر گلشن اعجاز بھٹی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے وقت لوگ احساس کفالت پروگرام کی رقم وصول کرنے کے لیے اندر موجود تھے جبکہ گیٹ کے باہر ان کے ساتھ آنے والے لوگ انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں یہ دستی بم آکر گرا۔

اعجاز بھٹی کا کہنا تھا کہ گیٹ کے باہر پولیس اور رینجرز دونوں کی موبائل موجود تھیں۔

دوسری جانب شمالی سندھ کے شہر گھوٹکی میں صبح ساڑہ نو بجے کے قریب گھوٹا مارکیٹ کے علاقے میں رینجرز کی ایک گاڑی کے نزدیک دھماکہ ہوا۔

ڈی ایس پی عبدالقادر چاچڑ کے مطابق اس دھماکے میں رینجرز کے دو اہلکار ظہور احمد اور فیاض شاہ ہلاک ہوگئے جبکہ سپاہی امتیاز حسین سمیت دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔

کالعدم تنظیم سندھو دیش ریولیشنری آرمی نے کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے نیاز لاشاری کو قومی سلام پیش کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کالعدم قرار دی گئی تنظیم جسقم آریسر کے مطالبات کیا ہیں؟

راولپنڈی: صدر میں دھماکہ، کم سے کم ایک ہلاک، 10 زخمی

بھٹو، ضیا اور جی ایم سید

واضح رہے کہ چند دن قبل جئے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ کی مرکزی کمیٹی کے رکن نیاز لاشاری کی تشدد شدہ لاش قومی شاہراہ اور سپر ہائی وے لنک روڈ سے ملی تھی، ان کے ورثا کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ ڈیڑہ سال سے لاپتہ تھے۔

کراچی دھماکے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کی شناخت کاشف کے نام سے ہوئی ہے جو ناظم آباد کا رہائشی تھا اور دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو عباسی شہید اور سول ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل گلستان جوہر میں رینجرز کی موبائل گاڑی اور چوکی پر دستی بم حملے کیے گئے تھے جن میں ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا، جس کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری بھی غیر معروف کالعدم تنظیم سندھو دیش ریولیشنری آرمی نے قبول کی تھی۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور گورنر عمران اسماعیل نے کراچی اور گھوٹکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔

گورنر سندھ کا کہنا ہے کہ احساس پروگرام کے مراکز کو سکیورٹی فراہم کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔

ماضی میں سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے گئے حملے

یاد رہے کہ سنہ 2013 میں کراچی میں چین کے سفارتخانے کے باہر ایک ہلکی نوعیت کے دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینیئر کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمہ داری یہ گروپ قبول کرتے رہے ہیں۔

اس سے قبل حیدرآباد میں 1987 میں اس وقت کے میئر آفتاب شیخ پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ اس حملے کا الزام جیے سندھ کے کارکنوں پر ہی عائد کیا گیا اور پولیس نے مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

آفتاب شیخ کا تعلق مہاجر قومی موومنٹ سے تھا۔

اگلے سال ستمبر 1988 میں حیدرآباد میں نامعلوم مسلح افراد نے سڑکوں پر عام لوگوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 150 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور اس کا مقدمہ ڈاکٹر قادر مگسی، شفیع برفت اور دیگر کے خلاف دائر کیا گیا۔

بعد میں عدالت نے قادر مگسی کو بری کر دیا اور شفیع بُرفت مفرور رہے۔ قادر مگسی اِس وقت سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ہیں اور شفیع برفت کالعدم جیے سندھ متحدہ محاذ کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس وقت جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔

جیے سندھ تحریک کیا ہے اور ان کے کیا مطالبات ہیں؟

تین مارچ 1943 کو سندھ اسمبلی میں سندھ کے سینیئر سیاستدان جی ایم سید نے پاکستان کے قیام کے لیے قرارداد پیش کی تھی۔ سندھ یہ قرارداد پیش کرنے والا پہلا صوبہ تھا۔

مگر انھی جی ایم سید نے 1973 میں سندھو دیش یعنی سندھ کے ایک آزاد حیثیت میں قیام کا تصور پیش کیا تھا۔

روا ں برس مئی میں سندھی ادیب اور تاریخ نویس خادم سومرو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ ہی وقت ہے جب 1973 کا آئین پیش کیا گیا تھا۔

آئین سازی سے پہلے جی ایم سید نے ذوالفقار علی بھٹو کو صوبائی خود مختاری یقینی بنانے کے لیے اور مذہبی شدت پسندی اور آمریت کا راستہ روکنے کے لیے تجاویز پیش کی تھیں جنھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

خادم سومرو کے مطابق آئین منظور ہونے کے بعد جی ایم سید بدظن ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس آئین کے تحت سندھ کو کبھی حقوق نہیں ملیں گے اور آخرکار حیدرآباد میں طلبہ کے ایک پروگرام میں انھوں نے پہلی بار سندھو دیش کا تصور پیش کیا۔

کالعدم جیے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ کے چیئرمین اسلم خیرپوری کا کہنا تھا کہ وہ جی ایم سید کے نظریے کے پیروکار ہیں جس کے تحت ان کی منزل سندھو دیش ہے۔

لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی جماعت پرامن جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ جی ایم سید نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ انھوں نے 32 سال جیل اور نظر بندی میں گزار دیے لیکن تشدد کی حمایت نہیں کی۔

جی ایم سید، سندھ، پاکستان، قوم پرست، عبدالواحد آریسر

2015 میں وفات پا جانے والے قوم پرست رہنما عبدالواحد آریسر کی جماعت جسقم (آریسر) سندھ سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی رہائی کے لیے بھی سرگرم تھی

ان کا کہنا تھا ‘2017 سے ہماری تنظیم کے خلاف ایک غیر اعلانیہ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ہمارے کئی کارکن جبری لاپتہ ہوئے اور اس وقت بھی ان کی تعداد 17 کے قریب ہے۔ اس طرح ہماری جدوجہد میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تھیں۔’

جسقم آریسر گروپ کے موجودہ چیئرمین اسلم خیرپوری کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ پرامن سیاسی جدوجہد کر رہے تھے لیکن یہ بھی ریاستی اداروں کو ناگوار گزرا اور انھیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔

انھوں نے الزام لگایا تھا کہ اس فیصلے کے ذریعے انھیں اپنے حقیقی مطالبات اور شکایات عالمی ضمیر تک پہنچانے سے روکا جا رہا تھا، اور انھوں نے اسے ‘بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی’ قرار دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp