جب صدر رفیق تارڑ نے جرنیلوں کو استعفیٰ دینے سے انکار کیا


فائل میں سجی سمری اور منسلک آرڈیننس کا موضوع صدرِ مملکت کی تنخواہ، پنشن اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ تھا۔ یہ ایک طویل فہرست تھی جس میں درج نہایت ہی اشتہا انگیز مراعات و سہولیات کا تعلق صدرِ مملکت کی فراغت کے بعد سے تھا۔

صدر کا رویہ بے لچک تھا، طارق عزیز سے ملاقات سے قبل انہوں نے ہم سے اس فائل پر بات کرتے ہوئے کہا تھا۔ ان لوگوں نے مجھے گھر بھیجنے کی ٹھان ہی لی ہے تو ان نوازشات کی کیا ضرورت ہے ؟اگر یہ اپنے لئے چاہتے ہیں تو میرے کندھے پر کیوں بندوق رکھتے ہیں ؟

سو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں طارق عزیز کو بتا دیا کہ اس آرڈیننس کی منظوری نہیں دے سکتا ( منصب سنبھالنے کے کوئی آٹھ ماہ بعد 27فروری 2002ء کو صدر مشرف نے اس کی منظوری دیدی)۔

فائل کا قضیہ تمام ہوا تو صدر تارڑ نے طارق عزیز سے کہا ’’مجھے بھی بہت سی اطلاعات ملتی رہتی ہیں اتنا بے خبر نہیں ہوں اچانک پیٹھ میں خنجر گھونپنا اچھی بات نہیں جو بھی ہے مجھے صاف صاف بتا دیا جائے۔ صدر نے آرمی ہائوس والی میٹنگ کا ذکر بھی کر دیا۔

طارق عزیز کے واپس جاتے ہی چیف ایگزیکٹو آفس میں ہا ہا کارمچ گئی۔ سرِ شام ڈاکٹر قدیر خان دفتر سے گھر جا رہے تھے کہ جنرل غلام احمد کا فون آ گیا۔ گھر پہنچے تو شریف الدین پیرزادہ کی کال آگئی۔

ڈاکٹر صاحب نے جو مناسب سمجھا کہہ دیا لیکن ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھ چکی تھی۔ طارق عزیز اگلے ہی دن ، 8جون کو وقت لے کر ایک بار پھر صدرتارڑ سے ملنے آ گئے، کہنے لگے ’’میں نے آپ کی تمام باتیں چیف ایگزیکٹیو تک پہنچا دی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صدر صاحب کے ہاں کھانا کھائے بہت دن ہوگئے ،اگر آپ کی کوئی مصروفیت نہ ہو تو وہ 13جون کو آپ کے ساتھ ڈنر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

صدر نے اپنی مصروفیات کے کیلنڈر پر نگاہ ڈالی اور کہا ’’جی ٹھیک ہے ‘‘۔ طارق عزیز نے جیب سے ایک پرچی نکالتے ہوئے کہا ’’چیف نے مہمانوں کی لسٹ بھی دی ہے‘‘۔ صدر نے پرچی تھام لی۔ اس پر جنرل مشرف، جنرل محمود، جنرل یوسف، جنرل غلام احمد اور طارق عزیز کے نام درج تھے۔

’’یومِ عشائیہ‘‘ 13 جون کو چین سے آئے وزیر مواصلات نے صدرِ تارڑ سے ملاقات کی۔ تب سرکاری طور پر صدر کے دورۂ چین کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ چینی مہمان نے کہا ’’مسٹر پریذیڈنٹ ہمارے ہاں ستمبر اور اکتوبر کے مہینے بہار کے ہوتے ہیں۔

صدر عوامی جمہوریہ چین آپ کے دورے کے منتظر ہیں‘‘۔ صدر نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولے ’’میں خود بڑی بے تابی سے دورۂ چین کا منتظر ہوں‘‘ مجھے یقین ہے کہ جو کچھ ہو رہا تھا، چینی اس سے بے خبر نہ تھے۔

عشائیے کے تمام مہمانانِ گرامی کی گاڑیاں نوبجے شب قافلے کی شکل میں صدارتی رہائشگاہ کے وسیع پورچ میں داخل ہوئیں۔ کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں محفل جمی، قہوے کا دور شروع ہوا تو جنرل مشرف گویا ہوئے، سر ہم سب ایک ضروری گزارش کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم سب خاص طور پر میں بہت شرمندہ ہوں۔ آپ نے ہم سے بہت تعاون کیا جس کے لئے ہم آپ کے بے حد شکرگزار ہیں۔ اس وقت اکانومی کی صورتحال بہت خراب ہے بے یقینی کی وجہ سے سرمایہ کاری رک گئی ہے۔

طویل تمہید کے بعد جنرل مشرف نے ذرا سا وقفہ لیا تو صدر تارڑ بولے جنرل صاحب ! میں یہ سب باتیں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں بلا تکلف کہہ ڈالیں۔

چیف ایگزیکٹو بولے ، سر بات یہ ہے کہ اس سنگین صورتحال میں فوجی قیادت کی رائے ہے کہ میرے صدر بن جانے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ بس قومی مفاد کا ایشو ہے سر۔

صدر تارڑ نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو وہ کہنا چاہتے تھے۔ آخر میں انہوں نے کہا ’’اب جب کہ آپ لوگوں نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مجھے صرف یہ بتا دیجئے کہ آپ ایسا کب کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘سب نے جنرل مشرف کی طرف دیکھا انہوں نے کوئی تاریخ تو نہ دی البتہ بولے ’’آپ بتائیں یہ کس طرح کیا جائے ‘‘صدر تارڑ نے روکھے پن سے کہا ’’یہ آپ کا دردِ سر ہے ‘‘ ایک سینئر جنرل نے اپنے لہجے میں جرنیلی طنطنہ بھرتے ہوئے کہا آپ استعفیٰ بھی تو دے سکتے ہیں۔ صدر تارڑ بولے’’کسے دوں استعفیٰ؟ آئین کے تحت میں قومی اسمبلی کےا سپیکر کو استعفیٰ پیش کر سکتا ہوں۔ آپ نے پارلیمنٹ، اسپیکر سب معطل کر رکھا ہے۔‘‘

ایک اور جرنیل نے تحکمانہ لہجے میں مشورہ دیا ’’آپ چیف ایگزیکٹیو کو دے دیں ‘‘۔ اس جملے نے مرد بزرگ کی بوڑھی رگوں میں رینگتے لہو میں چنگاریاں سی بھر دیں۔

جنرل کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’جنرل صاحب میں کسی انقلاب کے ذریعے نہیں آیا، میں نے آپ کے کسی پی سی او کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔

آپ بہت طاقتور سہی لیکن جس آئین کا آپ نے اور میں نے حلف اٹھایا ہے اس کے تحت میں آپ کا سپریم کمانڈر ہوں۔

کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے ماتحت کسی سپاہی یا افسر کو استعفیٰ پیش کردوں اور وہ اس کی منظوری دے ؟ اور آخری بات سن لیں، میں استعفیٰ نہیں دوں گا ‘‘۔

ایک سناٹا چھا گیا شاید مرد بزرگ سے کسی کو اس جواب کی توقع نہ تھی۔ تنائو اور کشیدگی کے اسی اعصاب کش ماحول میں اجلاس برخاست ہو گیا۔ معزز مہمانان گرامی، پرتکلف عشائیے کے بعد ایک تلخ پیغام دے کر اور میزبان گرامی سے ایک دو ٹوک فیصلہ لیکر رخصت ہو گئے۔

اگلے دن 14 جون کو جب صدر تارڑ مجھے یہ تفصیلات سنا رہے تھے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود کا فون آیا کہ وہ آج ہی ملنا چاہتے ہیں۔ صدر نے اے ڈی سی سے کہا شام ساڑھے آٹھ بجے گھر پر آجائیں۔ جنرل کا پیغام نہایت واضح تھا…. (جاری ہے)

اس سیریز کے دیگر حصے19برس پہلے: اس پراسرار فائل میں کیا تھا؟سید زادی کا کنگن اور واجپائی کی مبارکباد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments