طارق عزیز، اپنے فلمی کرداروں میں بھی انقلابی


اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ، باوجود اس کے کہ طارق عزیز ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، پاکستان ٹیلی ویژن (اور میزبانی) ان کی شناخت بنی۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی پاکستان ٹیلی ویژن سے ابتدائی وابستگی تھی، دوسرے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد بھی ان کے پاکستان ٹیلی ویژن سے مسلسل متعلق رہنے سے، یہ ربط مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔

وہ ساٹھ کی دہائی سے اس سے وابستہ ہوئے اور پھر ستر کی دہائی سے کبھی تسلسل اور کبھی توقف کے ساتھ اس چھوٹی سکرین پر ان کا راج رہا۔ جب کہ ابلاغ کے باقی ذرائع پر ان کا یہ تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ ریڈیو ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ابتدائی ساتھی تھا، جب کہ فلم انڈسٹری میں وہ ساٹھ کی دہائی ہی سے شامل ہوئے مگر، اپنے دوسرے سیاسی دور کے شروع ہونے کے بعد، اس دل چسپی کا مظاہرہ نہ کر سکے جس کا وہ خصوصاً ستر کی دہائی تک کر چکے تھے۔

عمومی طور پر ان کی فلمی پرفارمنس کو، ناقدین اور مبصرین کی طرف سے بہت زیادہ گفتگو کا موضوع نہیں بنایا گیا، اور ان کی شخصیت کے دائرۂ اثر کو ٹیلی ویژن کی میزبانی تک ہی محدود رکھا گیا۔ یہ تحریر اس بات کا احاطہ کرنے کے لئے ہے کہ طارق عزیز، ایک فلمی اداکار کی حیثیت سے بھی کس قدر خوش قسمت تھے۔

اپنی ابتدائی فلم ”انسانیت“ سے لے کر انھوں نے متعدد فلموں میں کام کیا، جن میں ہر نوع کے کردار شامل ہیں۔ مختلف فلموں میں، انھوں نے کیریکٹر ایکٹر، اولڈ، ینگ تمام بہروپ بھرے۔ ان فلموں کا اصل پہلو جو انھیں ممتاز اور ایک اداکار کی حیثیت سے خوش قسمت بناتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا حقیقی زندگی میں جس طرح انقلابی اور باغی کا امیج قائم ہو چکا تھا۔ فلم سازوں نے، اسی تصور سے مماثلت رکھنے والے کرداروں میں انھیں پیش کرنے کے کوشش کی۔ گویا ان کے لئے کردار ہی ایسے تخلیق کیے گئے یا ان کی کاسٹ میں شمولیت کے پیش نظر، اس کردار کو ایسے تراشا گیا۔

انھوں نے کم و بیش تیس فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور یہ بجا طور پر ان کی خوش قسمتی قرار دی جانی چاہے کہ ان میں بیش تر فلمیں، ان کے انقلابی امیج کی آئینہ دار ہیں۔

پرویز ملک کی پاکستانی مزاج سے قطعی ہٹ کر، ادبی موضوع پر بنائی جانے والی فلم ”سوغات“ میں، طارق عزیز کا کردار غیر معمولی نا ہو، یہ کیسے ممکن تھا۔ ایک سچے اور ستائے ہوئے شاعر کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے، ان سے زیادہ موزوں اور کون ہو سکتا ہے اور یہ ترجمانی (فلمی ہیرو ندیم کے لئے ) اپنے مخصوص لہجے میں انھوں نے خوب ادا کی۔

فیاض شیخ کی فلم ”زخمی“ میں وہ ایک حساس اور کسی مصالحت پے تیار نہ ہونے والے شاعر کے طور پر سامنے آئے، جس میں ریاض شاہد کے شاندار اور چبھتے ہوئے مکالموں نے اس کردار کو مزید متاثر کن بنا دیا۔ اس کردار نگاری میں، حبیب جالب کی شاعری بھی، ان کے ہمراہ تھی ”یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں، مر کیوں نہیں جاتے“ ۔

ہدایتکار قمر زیدی کی مشہور فلم ”سالگرہ“ میں جب ایک حقیقی منصف کے کردار کے لئے اداکاروں کے نام زیر غور آئے ہوں گے، تو جانے کیوں، طارق عزیز صاحب کے فلموں کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ انہی کے نام پر اتفاق رائے ہوا ہو گا، اور اس فلم میں ان کے کردار کی مقبولیت بتاتی ہے کہ یہ درحقیقت اس موزوں انتخاب ہی کی تائید تھی۔ خود اپنی بیٹی کے لئے سزائے موت تجویز کرنے والے عادل کا آئڈیا، عام ڈگر سے جس قدر ہٹ کر تھا، اسی قدر یہ طارق عزیز کی شناخت سے بھی مشابہہ تھا۔

حسن طارق کی فلم ”کالو“ کا ایک غیر روایتی تھانیدار، اس انقلابی روایت کی ایک اور شاندار مثال ہے، جس کی کردار نگاری کے لئے لکھے گئے مختلف مناظر کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مثلاً ”جہاں پولیس کا ایک سپاہی ایک مزدور کو محض اس لئے مشتبہ قرار دیتا ہے کہ وہ حبیب بنک کی (مشہور) بلند قامت عمارت کے نیچے بیٹھا تھا جبکہ وہ اس عمارت کی تعمیر میں شریک رہا تھا، یہاں تھانیدار کا، مزدور کی وکالت میں بولنا یا جہاں کالو، برے کام چھوڑنے کے لئے، تھانے سے اپنی تصویر ہٹانے کی شرط لگاتا ہے، جب کہ وہ تصویر پہلے ہی ہٹائی جا چکی ہوتی ہے، اس تھانیدار کے غیر معمولی کردار کو نمایاں کرتی ہے۔

جب دوسرے فلم سازوں کی نگاہ میں انھیں اس انقلابی اور باغی کے روپ میں قبول کیا گیا تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ خود فلم بنائیں اور اس پہلو کا خیال نہ رکھیں۔ ان کی ذاتی فلم ”ساجن رنگ رنگیلا“ روسی ناول نگار میکسم گورکی کے مشہور زمانہ ناول ’ماں‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی، مگر اس فلم کے ساتھ، یہ ہاتھ ہوا کہ جس دور میں یہ بنائی گئی، وہ اداکار رنگیلا کے عروج کا دور تھا، یوں، غالباً اس خیال سے کہ کڑوی گولی، گلاب جامن میں ڈال کر دی جائے، اس کا بنیادی خیال رنگیلا کے رنگوں میں دب گیا، ہر چند کہ طارق عزیز اپنے امیج کے عین مطابق تھے اور یہاں بھی حبیب جالب کی شاعری میسر تھی۔

شاید ان کی فلموں کی فہرست میں، دو مزید ذاتی فلموں کا اضافہ اور ہوتا، ایک ”جئے بھٹو“ جو ان کے ابتدائی سیاسی دور کی یادگار تھی اور دوسری ”آگ میں پھول“ جو وہ وحید مراد اور شائستہ قیصر کے ساتھ مکمل کرنا چاہتے تھے اور جس کا اعلان انھوں نے اپنے فلمی کیریر کے آخری آخری دور میں کیا تھا، مگر ان کی ہمہ جہت شخصیت کی دوسری مصروفیات نے ان کے ان منصوبوں کو، حتمی شکل اختیار نہ کرنے دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments