گلی محلوں میں موت کے سائے


ملک بھر خصوصاً پنجاب میں کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ اس وائرس سے پہلے پوش علاقے زیادہ متاثر تھے لیکن اب اس جان لیوا وائرس نے گلی محلوں کا بھی رخ کر لیا ہے۔ اس قاتل وائرس کو گلی محلوں میں آنے کی دعوت خود رہائشیوں نے دی ہے۔ عید سے چند دن قبل جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو لوگوں نے کورونا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی خریداری اور گھر سے باہر نکلنے کا آزادانہ سلسلہ جاری رکھا، اس دوران ایس او پیز کی رج کے دھجیاں اڑائیں گئیں۔ ان دنوں میں نے اپنے کالم ”عید کی خریداری کرتے ہوئے کورونا مت خریدیں“ میں اس بات سے لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر احتیاط نہ کی تو نتیجہ خطرناک ہوگا اور آج نتیجہ آپ کے سامنے ہے، گلی محلوں میں کورونا کس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے۔

پاکستان میں کورونا کی آمد سے لے کر اب تک وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان سمیت تمام وفاقی و صوبائی وزراء کورونا کی روک تھام کے سلسلے میں اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی زور دیتے رہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے لوگ میل جول کم کریں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، ماسک کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔

تمام تر ہدایات، اپیلیں خواہ حکومت کی جانب سے ہوں یا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے، لوگوں نے کورونا کو صرف اور صرف مذاق سمجھا اور نہ صرف خود کو خطرے میں مبتلا کر دیا بلکہ ایک دوسرے کی جانوں سے بھی کھیلنے لگے۔ پنجاب حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لئے کئی ہنگامی اقدامات کیے تاکہ عوام کی جان کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ پنجاب کے حالیہ بجٹ میں ایک نیا ڈویلپمنٹ پیراڈائم متعارف کروایا گیا ہے جسے ”آگے بڑھو پنجاب“ کا نام دیا گیا ہے۔ ”آگے بڑھو پنجاب“ کے تحت کورونا سے نمٹنے کے لیے 106 ارب کا پیکج مخصوص کیا گیا ہے جو کورونا کے دوران صحت اور معیشت کو درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے میں معاونت فراہم کرے گا۔

حکومت کے اقدامات کے باوجود جب تک لوگ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں موثر کردار ادا نہیں کریں گے اس وبا سے بچنا مشکل ہے۔ پچھلے لاک ڈاؤن کے دوران میں نے دیکھا کہ گلی محلوں میں رہائشی گھروں سے باہر نکل کر ملنے ملانے اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے کے لئے محفلیں جما رہے تھے جبکہ نوجوان اور بچے کورونا سے بے خبر کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں لگے ہوئے تھے، جب اس غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث علاقے میں کورونا کے باعث ایک دو ہلاکتیں ہوئیں تو وہی گلی محلے یک دم سنسان ہو گئے، سب اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

محلے داروں نے آپس میں ملنا ملانا بند کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کورونا کسی کی جان نہ لے لے تب تک کوئی یقین نہیں کرے گا اور کیا فائدہ ایسے یقین کا جب اتنی جانیں چلی جائیں اور پھر سبق حاصل کیا جائے۔ لاہور کے جو علاقوں سیل کیے گئے ہیں اب ان علاقوں کے رہائشیوں کو کم از کم اس بات کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ کورونا وائرس مذاق نہیں ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کا سامنا ان سب کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو کورونا کو مذاق یا خیال تصور کرتے ہیں۔

انڈیا کی صورتحال کو ہی لے لیجیے جہاں سخت لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں سخت اور ظالمانہ لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا کے باعث ایک ہی دن میں 2000 سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس خطرناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، بے شک ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کورونا سے اموات کی شرح بہت کم ہے لیکن اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کورونا سے لاپروا ہوجائیں اور کبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کر لیں اور دل میں یہ سوچیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے، خطرہ ٹلا نہیں بلکہ اب شروع ہوا ہے اس لئے ہمیں ہر طرح کی احتیاط کرنا ہوگی۔

کورونا سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔ کورونا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی جان بچانے کے لئے ان خوش نصیبوں کو آگے آنا ہوگا جنھوں نے کورونا کے مرض کو شکست دی۔ کورونا کے مشکل تر ین حالات میں بھی 50 ہزار سے زائد ایسے خوش قسمت افراد ہیں جنہوں نے کورونا کو شکست دی ہے۔ ان صحت یاب افراد کو چاہیے کہ وہ اپنا پلازما عطیہ کر کے دوسروں کی زندگیاں بچانے میں اہم کردار ادا کریں کیونکہ صحت یاب ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کریں، اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments