یہاں سازشی تھیوری بنانے کا تسلی بخش کام کیا جاتا ہے


مجھ سے ملیے۔ میں ہوں ایک کانسپیریسی تھیوری سپیشلسٹ۔ لوگوں میں تھرتھلی پیدا کر دینا میرا شوق ہی نہیں، پیشہ ورانہ مجبوری بھی ہے۔ ویسے تو اس خداداد صلاحیت کے بارے میں مجھے بچپن سے ہی معلوم تھا لیکن ”سپیشلسٹ“ کے لاحقے والا یہ معزز سا تعارف میں نے بڑے ہونے کے بعد اپنایا۔ بچپن میں تو بس سب فسادی، دروغ گو، جھوٹی اور پتہ نہیں کیا کیا بولا کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے، اب میں ”سوشل میڈیا انفلوئنسرز“ کی ایک معتبر سورس ہوں۔

اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے متعارف ہونے سے پہلے اس فن کی ضرورت و اہمیت سے خود میں بھی واقف نہ تھی۔ بس یہ تھا کہ جہاں خاندان کے چار بڑوں کو کونے میں سر دیے ہنگامی اجلاس کرتے دیکھا، کوشش شروع ہوجاتی کہ کسی طرح پتہ لگ جائے کہ کس کی فائل کھلی ہے۔ بس نام پتہ لگنے کی دیر ہوتی تھی، باقی کی سچویشن تخلیق کرنا ہمارا کام۔ ایسے ایسے قصے گھڑے کہ اللہ معافی۔ تب مسئلہ یہ تھا کہ اپنے ”تخلیقی ذہن“ جسے خاندان والوں نے اپنی کمزور املا کی وجہ سے ”تخریبی ذہن“ سمجھا، اس میں لپکنے والے ان خیالات کو سننے کے لئے خاندان والے بھی تیار نہ تھے۔ مصلحت پسند ہنس کے کہتے ”لپیٹ لو“ اور اس ٹیلنٹ کے حاسدین سے میں خود ہی اجتناب برتتی تھی۔ بیکار بحث کون کرے جی۔

خیر چھوڑیں، میں بھی کیا بچپن کی باتیں لے بیٹھی۔ اب تو ہمارے دن بھی بدل گئے ہیں۔ لوگوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے ہم خود پورے کے پورے کڑاہی میں ہیں۔ ہر جماعت اور اس سے جڑے سوشل میڈیا انفلوئنسرز ہمارے قدر دانوں میں شامل ہیں۔ زیادہ تر نے تو ہمارے چینل کو باقاعدہ سبسکرائب کر رکھا ہے اور بیل کا آئیکون بھی پریس کر رکھا ہے، ادھر ہماری تازہ ترین ویڈیو سامنے آئی، ادھر جھٹ سے اس کے اہم نکات پر مبنی واٹس ایپ میسجز کا سلسلہ شروع ہوا۔

آپ سے کیا پردہ، بعض تو خود ہی ان باکس میں رابطہ کرتے ہیں۔ اب ان کی پسند نہ پسند کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے نا، کوئی ملکی حالات کو خان صاحب کے خلاف انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دلوانے پر مصر ہوتا ہے تو کوئی لبرلز کے ہاتھوں اسلام کے مضبوط قلعے میں نقب لگائے جانے پر نالاں، ان سب کے غم و غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلی ویڈیو تیار ہوتی ہے۔ اور ہاں بحث کے شوقین حضرات سے نمٹنے کے لئے اضافی فیس کے ساتھ اضافی دلائل بھی فراہم کرتی ہوں۔ اب یا تو اگلا ان سے قائل ہوجاتا ہے یا پھر بلاک۔

کرونا کا معاملہ ہی دیکھ لیں، یار دوستوں کے کہنے پر کچھ تھیوریز عوام کی تشفی کے لئے پیش کی ہیں لیکن بھئی مقابلہ بہت سخت ہے مگر پھر بھی کوشش جاری ہے۔ ویسے وہ والی تو آپ نے بھی سنی ہی ہوگی کہ کیسے چینی عورت نے بے وفا محبوب جو ریستوران کا مالک بھی تھا، اس کا کاروبار بند کروانے کے لئے سرکاری بائیو لیب کے انجینیئر کی مدد لی۔ بس جی عورت کا انتقام ایسا ہی ہوتا ہے۔ ( ایسی چار چھ تھیوریز تو ہر وقت اپنی جیب میں ہوتی ہیں، آپ کو بھی بوقت ضرورت فراہم کی جا سکتی ہیں ) ۔

کل ہی ایک دوست کا ٹیلی فون آیا تھا، وہ وائٹ ہاؤس کی پچھلی گلی میں رہتا ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی ہے کہ ٹرمپ بھی چونکہ اس فن کے قدردان معلوم ہوتے ہیں، اس لئے وائٹ ہاؤس میں میری نوکری کا بندوبست کرے۔ محلے داری کے بھی کچھ تقاضے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ضرور میری سفارش کرے گا۔ اسی سلسلے میں آج کل اپنا پورٹ فولیو بنانے پر کام جاری ہے۔ کرونا اور اس کے خاتمے کے لئے بل گیٹس کی کوششوں نے کام خاصا آسان کر دیا ہے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستانی بھائی اس کے خلاف بہت سے تحفظات کا پہلے ہی شکار ہیں۔ بس جی سمجھیں اپنا تو کام آسان ہوگیا۔ نینو چپ کی صورت میں جاسوسی اور دجالی کنٹرول والی باتیں تو آپ نے سنی ہی ہوں گی۔ آنے والے وقتوں میں اور بھی بہت کچھ سننے کو ملے گا، بس جب جب بھی کچھ سننے کو ملے، بہن کے ٹیلنٹ کو نظر نہ لگنے کی دعا کرنا مت بھولیے گا۔

پس نوشت: آج کل دفتر کھولنے کے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ کل ہی پینٹر کا فون آیا تھا۔ پوچھ رہا تھا کہ دفتر کے داخلی دروازے پر تختی پر کیا لکھوانا ہے۔ میرے ذہن میں تو بس یہی آیا ہے کہ ”یہاں سازشی تھیوری بنانے کا تسلی بخش کام کیا جاتا ہے“ ۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

پس نوشت 2 : سازشی تھیوریز کے علاوہ بزرگوں کو خواب میں دیکھنے اور موجودہ سیاسی حالات پر ان سے مفید مشورے حاصل کرنے کی خدمات بھی دستیاب ہیں۔

پس نوشت 3 : کرونا کا رونا تو اب پرانا ہورہا ہے، پاکستانیوں کے لئے تازہ ترین تحقیق طلب موضوع ”ٹڈی دل کا حملہ“ ہے۔ امید ہے کہ ہمارے قبیلے کے جوان اپنی اپنی ”تحقیقات کے ساتھ بس میدان میں اترتے ہی ہوں گے اور عنقریب ٹڈی دل کے پیچھے موجود گہری سازش کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ ( میں بھی تحقیقات میں مصروف ہوں )

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments