ایران میں زندہ جلنے والا افغان پانی مانگتا مر گیا


ایران کے صوبے یزد کے دارالحکومت یزد میں ایک انسان آگ میں لپٹا ہوا سڑک کنارے صدا لگاتے ہوئے زندگی کی بھیک مانگنے لگا اس کی آواز میں درد تھا وہ بے بسی کے عالم کہہ رہا تھا میں جل رہا ہوں پانی پلا دو لیکن اس کی آواز دیار غیر میں سننے والا کوئی نہیں تھا وہ آگ کی شعلوں میں جھلستا رہا۔ یہ نظارہ دیکھنے والے خود کو قدیم انسانی تہذیب ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اس وقت اب میں سے کوئی ایسا نہیں تھا کہ وہ ایک تڑپتی ہوئی روح کو آرام پہنچانے کے لئے چند گھونٹ پانی اس کی حلق میں انڈیل دیتا۔ جھلسنے والا انسان اکیلا نہیں تھا اس کے دو ہمسفر پہلے ہی آگ میں جل کر خاکستر ہوچکے تھے۔

یہ واقعہ رواں ماہ میں پیش آیا جب ایک گاڑی میں سوار تیرہ افغان باشندوں پر ایرانی سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ جس کے نتیجے میں گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی اور یوں تین مسافر جھلس کر ہلاک ہو گئے اور اس حادثے میں چار افغانی باشندے جھلس کر زخمی ہو گئے۔

ایران میں افغانیوں کے ساتھ یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے اس پہلے بھی بہت سے واقعات ہوچکے ہیں جن میں افغان باشندوں کی جان جا چکی ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مئی کے مہینے میں رونما ہوا تھا کہ جب ایرانی سرحدی محافظوں نے ستاون افغان مسافروں پر اس وقت فائر کھول دی جب وہ ایرانی سرحد عبور کر رہے تھے۔

فائرنگ کے بعد افغان مسافروں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر تشدد کرنے کے بعد افغانستان کی طرف بہنے والا دریا ہری رود میں پھینک دیے گئے۔ جس کی وجہ سے تیس افغان باشندے ہلاک ہوئے ان واقعات کے بعد افغانستان اور افغانستان سے باہر رہنے والے افغان باشندوں میں ایران کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنے غصے کا اظہار ایران کے خلاف افغانستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں احتجاج ریکارڈ کر کے کیا۔ یاد رہے سوویت یونین کی افغانستان میں یلغار کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں نے دیگر ممالک ہجرت کی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اسی کی دہائی میں سب سے زیادہ چالیس لاکھ افغان باشندوں نے پاکستان ہجرت کر کے پناہ گزین کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران میں اب بھی پچیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین آباد ہیں اور ان کی اکثریت ایران کے شہر تہران، شیراز اور زاہدان میں رہائش پذیر ہیں۔ افغان پناہ گزین کی ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ ایران کا ان کے ساتھ سلوک غیرانسانی رہا ہے۔ ایران پناہ گزین کو انسان سمجھنے کے بجائے کثافت یا اشخال یعنی کچرا سمجھتے ہیں۔

افغان پناہ گزین بنیادی انسانی حقوق، تعلیم اور روزگار سے محروم رہے ہیں یہاں تک کہ انھیں گاڑی چلانے کا حق اور آزادانہ سفر کی اجازت بھی حاصل نہیں رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب ایرانی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزین کے لئے نرمی اختیار کی گئی ہے اب وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی فیکٹری لگا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شام میں ہونی جنگ ہے جس میں باغیوں کے خلاف لڑنے کے لئے ایران نے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین کو بھرتی کیا ہے اور انھیں لڑنے کے لئے شام بھیجیں گے۔ بھرتی ہونے والے افغان پناہ گزین شامی حکومت کے دفاع کرتے ہوئے باغیوں کے گولیوں کے نشانہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments