طارق عزیز، نیلام گھر سے ہسپتال میں آخری ایام تک جو ہم نے دیکھا


طویل برآمدے میں گول کمرے کے عین دروازے میں، ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ سکرین روشن ہوتی۔ برقی پتلے اس سکرین پہ نمودار ہوتے۔ اماں جی شام کے دو گھنٹے سات سے نو بجے تک ٹی وی دیکھنے کی اجازت دیتیں۔ برآمدہ محلے کے لڑکے لڑکیوں سے کھچا کھچ بھر جاتا۔ ہم آلتی پالتی مار پھسکڑا جما کے سیمنٹ کے چکنے فرش پہ بیٹھ جاتے۔ بڑے بوڑھے چارپائیوں اور پیڑھیوں پر قبضہ جما لیتے۔ انہیں دنوں میری دیکھتی آنکھوں نے طارق عزیز کو دیکھا اور سنتے کانوں نے اس کی بھاری بھرکم آواز کو سنا۔

جو لوگوں کا ہجوم، اس کے پروگرام نیلام گھر کے دن ہمارے برآمدے میں ہوتا، بعد میں جب میں پڑھنے کے لیے شہر آیا تو وہی رش میں نے کئی سپرہٹ کھڑکی توڑ فلموں کی نمائش میں سنیما گھروں میں دیکھا۔ طارق عزیز کے پروگرام کا دھندلا خاکہ جو ابھی تک میرے دماغ کے خانوں میں محفوظ ہے، اس کے ابتدائی جملے تھے، ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام۔ کوئی ڈھائی دہائیاں قبل سنے گئے یہ فقرے میں محض اپنی یادداشت کے بل بوتے پر لکھ رہا ہوں ان میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

پھر بیت بازی کا مقابلہ اس پروگرام کا اہم حصہ تھا، جو میں بہت شوق سے سنتا تھا۔ نئے نویلے شادی شدہ جوڑوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ میاں یا بیوی کو چھپا دیا جاتا، جو اسٹیج پہ رہ جاتا، اس سے دوسرے کی پسند ناپسند کے بارے میں سوال جواب کیے جاتے۔ بعد میں دوسرے فریق کو بلا کے تصدیق کی جاتی۔ ایک سوال پہ الیکٹرا کا ٹی وی آپ کا ہوا، حاضرین سے وہ معلومات عامہ کا کوئی سوال پوچھتے۔ جواب ہمیں بھی آتا ہوتا تو دل میں یہ حسرت جاگتی کہ کاش ہم بھی اس وقت اس شو کے حاضرین میں شامل ہوتے تو الیکٹرا کا ٹی وی ہمارا ہو سکتا تھا۔

پروگرام کے مختلف حصوں میں کوئی گاڑی جیتتا، تو کوئی فریج اور کوئی واشنگ مشین۔ پروگرام کے اختتام پہ ایک فلک شگاف نعرہ لگواتے، پاکستان زندہ باد۔ طارق عزیز کے روئیں روئیں سے حب الوطنی کی صدا آتی۔ اس وقت وہ مجسم نعرہ بن جاتے۔ ان کے اس نعرے نے بھی ہمارے دلوں میں وطن پاکستان سے محبت پختہ تر کی تھی۔ پچھلے ایک دو برسوں میں جو طارق عزیز ہم نے اپنے بچپن میں ٹی وی سکرین پہ دیکھا تھا، اسے اپنے اسپتال میں دیکھتے رہے، ویل چیئر پہ انتہائی کمزوری اور ناتوانی کے عالم میں۔

وہ رعشہ کی بیماری پارکنسن میں مبتلا تھے۔ شاید فالج بھی ہو چکا تھا۔ چل پھر نہیں سکتے تھے وقتاً فوقتاً خوراک کی نالی بدلوانے اسپتال آتے۔ دیکھتی آنکھیں اپنے بچپن کے اس ہیرو کو اس بے بسی کے عالم میں دیکھتی تو نم ہو جاتیں اور سنتے کان اس کی اس سحر انگیز آواز سننے کے منتظر رہتے جو اب اپنا دم خم کھو چکی تھی۔ کچھ ٹوٹے پھوٹے بکھرے ہوئے لفظ تھے جو مشکل سے اس زبان سے پھسلتے تھے۔ ہم سب وقت کی زد پہ ہیں اور کتنے مجبور اور ناچار ہیں۔

وہ شاندار آدمی، جس کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش، بچپنے کے رنگین سپنوں میں شامل تھی۔ جب بچپن میں الف لیلوی داستانیں پڑھتے اور عینک والا جن ڈراما دیکھتے، تو دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لیتی کہ کاش ہمارے ہاتھ بھی ایک اڑنے والا قالین لگ جائے۔ اس پہ بیٹھ جائیں اور لاہور جا پہنچیں۔ لاہور میں سیدھا جائیں نیلام گھر پروگرام میں۔ وہاں دیں ہر سوال کا جواب اور پوری دنیا میں اپنی ذہانت کا سکہ بٹھا دیں۔ وقت رینگتا ہوا کہاں سے کہاں جا پہنچا۔

لمحوں کی دھول میں وہ الف لیلوی قالین گم ہو گئے۔ ہم کہاں سے کہاں جا نکلے۔ وہ خواب وہ خواہشیں وہ سپنے، کہیں کسی جادوگر نے سحر پھونک کر پتھر کے بنا دیے تھے۔ بہت مدت کے بعد جب ہم نے طارق عزیز کو اسپتال میں دیکھا تو وہ جادو بیاں، خود کسی ساحر کے منتر کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے لب خاموش تھے اور وہ چلتی پھرتی پتھر کی ایک مورتی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments