یہ دوہرا معیار آخر کیوں ہے؟


پاکستان کے ہر بچے بوڑھے اور نوجوانوں کے دل افواج پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں۔ جس طرح پاکستانی فوج مشکل حالات میں اپنی عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح یہ قوم بھی اپنی افواج کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیتی ہے۔ جنگ 1965 ء کی ہو یا 1971 ء کی وطن عزیز سے دلی محبت رکھنے والی عوام ملک دشمن قوتوں کے خلاف افواج پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی رہی۔

جدھر پاکستانی مسلح افواج بیرونی دشمنوں سے ہماری حفاظت کرتی ہے اسی طرح اندرونی دشمنوں اور مختلف قسم کے جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کا ادارہ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کے شعبہ کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ جدھر پبلک پاک فوج سے محبت کا جذبہ رکھتی ہے وہیں پولیس کے شعبہ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ پولیس کی وردی میں چھپی ہوئی چند کالی بھیڑیں ہیں جن کی وجہ سے پولیس ڈیپارٹمنٹ بدنام ہے۔

پاکستان میں پولیس کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ حکمرانوں نے پولیس کے شعبہ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی بھرتیاں کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال ہو پولیس گردی کی ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔ ان واقعات میں ملوث افسران کو کچھ دیر معطل کرنے کے بعد اعلی عہدوں سے نوازا گیا۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات موجود ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے۔ شاید انہیں واقعات کی وجہ سے پولیس کا شعبہ عوامی اعتماد کھو چکا ہے۔

پولیس کے محکمہ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مگر ایک کہاوت ہے کہ ’ایک مچھلی پوری تالاب کو گندا کر دیتی ہے‘ ۔ اگر یہ افسران اپنی ڈیوٹی ایمانداری کے ساتھ کرنا چاہیں تو انہیں سیاسی دباؤ کی وجہ سے روک دیا جاتا ہے۔ ان کا اپنا سسٹم ہی ان کے خلاف ہو جاتا ہے۔ ہم مکمل طور پر پولیس کو اس سب کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم بحیثیت قوم خود کیا ہیں۔

ہم پولیس کو اپنا محافظ سمجھنے کی بجائے اسے اپنے گھر کی لونڈی کیوں سمجھتے ہیں۔ ان ایماندار پولیس افسران کا کیا قصور ہے جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے پولیس اہلکاروں کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان کے بھی گھر ہیں جدھر ان کے بہن بھائی بیوی بچے اور والدین ہیں۔ جب ہم لوگ اپنے تہوار منانے میں مصروف ہوتے ہیں تب یہی پولیس اہلکار اپنے گھر والوں سے دور ہماری حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ پولیس والے اپنی تنخواہ میں کس طرح گزر بسر کرتے ہیں۔ ہمیں کیا ہمیں تو بس تنقید کرنی ہے۔ اگر آپ نے کسی پولیس اہلکار کو رشوت دے دی تو بس آپ کی نظر میں تمام پولیس والے رشوت خور ہیں۔ کبھی نہیں سوچا کہ جو ایمانداری کے ساتھ اپنی تنخواہ میں زندگی بسر کر رہا یہ رشوت خوری کا لفظ اس کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو گا۔

اگر کوئی فوجی وطن عزیز پر اپنی جان نچاور کرتا ہے تو اسے شہید کہا جا تا ہے مگر جب کوئی پولیس اہلکار اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مارا جائے تو اسے جان بحق کہا جاتا ہے۔ یہ دوہرے معیار آخر کیوں؟ جان تو دونوں نے وطن عزیز کی خاطر قربان کی ہے۔ پولیس کی نفری کم ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں سے ڈبل ڈبل ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ہر حکمران پولیس ریفارمز کی بات کرتا ہے مگر پولیس کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا۔

ہمیں پاکستانی افواج کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں موجود پولیس اہلکاروں سے بھی محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ وہ بھی دن رات اندرونی دشمنوں اور جرائم پیشہ افراد سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ اگر آج بھی ہمارے ساتھ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو ہم سب سے پہلے 15 پر کال کرتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم محکمہ میں چھپی کالی بھیڑوں کی وجہ سے ایماندار پولیس اہلکاروں کے لیے نا زیبا الفاظ استعمال کر کے ان کی دل آزاری نہ کریں وہ بھی اس وطن عزیز کے بہادر سپوت ہیں۔ اگر ہم نے اپنا دوہرا معیار نہ بدلہ تو ہر ایماندار پولیس افسر کے ذہین میں ایک ہی سوال ہو گا، یہ دوہرا معیار آخر کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments