دل کی صداقتوں سے منور : سید محمد شاہ کاظمی



لفظ پھر لفظ ہیں جذبوں کو سمیٹیں کیوں کر
میں کیسے کر پاؤں گا اظہار عقیدت تجھ سے

کہتے ہیں کہ رفتار سفر اگر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو ہر شے دھندلا جاتی ہے۔ دور کی چیزوں کے خدوخال گو پھر بھی قدرے واضح نظر آتے ہیں تاہم پیش منظر کی دھندلاہٹ ان پر دھیان دینا ناممکن بنا دیتی ہے۔ اس صورتحال میں منزل بے اصل پاکر ایکسپریس ٹرین کے مسافر اپنی اپنی کتابوں یا خیالات میں کھو جاتے ہیں۔ میں بھی یادوں کی پٹاری لیے سرپٹ بھاگ رہا تھا کہ میرے خیال و مطالعے نے اچانک مجھے قریب کی ایک ایسی شخصیت یاد دلائی کہ میرے پاس اس بطل جلیل کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی سعادت اور فخر ہی نہیں۔

محترم و محتشم الحاج پیر سید محمد شاہ کاظمی ؒ ہمارے علاقے کے مذہبی اور علمی افق پر ایک درخشندہ ستارہ تھا جس کی ضیا پاشیوں سے سینکڑوں علمی چراغ روشن ہوئے جنہوں نے فہم دین اور عشق مصطفیٰ کی روشنی سے ایک عالم کو منور کیا۔ مجھ ناچیز میں آج جو بھی ذوق مطالعہ اور شوق گفتار ہے وہ سید محمد شاہ کاظمی کے جوتے سیدھے کرنے کا صدقہ ہے۔ معاشرتی سدھار کے لیے افراد کے کردار کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر انسانی کاموں میں کٹھن ترین کام ہے اپنے طالبعلموں کی شخصی تعمیر اور تربیت کے مشکل کام کو جس انہماک، اخلاص، اور شیفتگی کے ساتھ صوفی منش اور درویش صفت استاد سید محمد شاہ کاظمیؒ بحسن و خوبی انجام دیا کرتے تھے میں نے نصف صدی میں ان جیسی کوئی اور مثال نہیں دیکھی۔

اپنے ساتھ وابستہ لوگوں کے کردار کی تعمیر وہی کر سکتا ہے جس کی ذات میں تطہیر کے عمل خیر کا چشمہ سدا پھوٹتا رہے۔ مکرمی محمد شاہ صاحب کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں اور استعداد کار سے نواز رکھا تھا۔ ان ہمہ جہت خصائص میں شاہ صاحب نے خوداحتسابی سے مثالی یکسوئی اور یکجہتی پیدا کی تھی انہوں نے اپنی تربیت انفرادی سے ذاتی سیرت تشکیل دی اور پھر سیرت و کردار کو ایمان و یقین اور عشق مصطفے ٰ ﷺ میں گوندھ کر خود کو اخلاقی شخصیت کے بلند مرتبہ پر پہنچایا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خزانۂ کائنات میں اخلاقی شخصیت غالباً سب سے گراں بہا گوہر ہے۔ وہ عالم باعمل تھے اس لیے ساری حیاتی وہ سینکڑوں دیہاتوں پر مشتمل مرکز کڑیانوالہ میں مذہبی علوم اور مردباصفا کے امتیازی نشان کے حامل واحد روزن دید تھے بلکہ شمعٔ رسالت ﷺ کے پروانوں کے لیے حقیقت عشق مصطفیٰ ﷺ پر نظر کرنے کا ایک ہی دریچہ تھا۔ ان کی صورت کا کمال اور روحانی جمال اپنی مثال آپ تھا۔

قیام پاکستان سے قبل اس علاقہ کا ایک اہم روحانی مرکز موضع سرہالی میں پیر سید سیدن علی شاہ صاحب کی ہستی تھی۔ یکم جنوری 1910 ء کے روز ان کے بڑے صاحبزادے کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اس کا نام سید محمد شاہ رکھا۔ اس کے علاوہ ان کے دو اور بیٹے سید احمد شاہ اور سید حامد شاہ تھے (یاد رہے یہ گجرات والے مقبول عام سید حامد شاہ صاحب نہیں ) سید محمد شاہ نے حسب روایت ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی اور پھر سیالکوٹ سے قرآن مجید حفظ کیا اور دینی تعلیم حاصل کی۔

کچھ عرصہ عالمی شہرت یافتہ روحانی ہستی پیر سید جماعت علی شاہؒ علی پوری نے انجمن خدام صوفیہ کے زیر انتظام جو مدرسہ بنایا تھا وہاں سے بھی فیضاب ہوئے۔ ان دنوں کڑیانوالہ میں مین بازار کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں لوگ نماز پڑھتے تھے کڑیانوالہ میں مسلمان بڑی اکثریت میں نہیں تھے۔ بیسویں صدی کے تیس کے عشرے میں یہاں کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ کم از کم نماز باجماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز بھی ہونی چاہیے لہٰذا مقامی مسلم آبادی کے لوگوں کا نمائندہ وفد سید محمد شاہ جیسے نوجوان عالم و حافظ کی مذہبی حمیت و جذبے کا سن کر پیر سید سیدن علی شاہ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اپنے بیٹے سید محمد شاہ کو کڑیانوالہ بازار والی مسجد کی خدمت کی ذمہ داری سونپیں تاکہ وہاں نماز جمعہ کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے۔

پیر صاحب نے شفقت فرمائی اور وفد کا مان رکھتے ہوئے سید محمد شاہ صاحب کو مسجد مین بازار والی میں حاضری کا فرض سونپا۔ محمد شاہ صاحب نے اپنے والد کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور پھر زندگی کی بھر اس عہد کو نبھایا۔ 34۔ 1933 میں محمد شاہ صاحب نے کڑیانوالہ کی چھوٹی سی مسجد میں امامت وخطابٹ کے بڑے مشن کا آغاز کیا تو آہستہ آہستہ یہ مسجد جامع مسجد اور پھر علاقہ بھر کی مرکزی جامع مسجد بن گئی۔ شاہ صاحب کی دلچسپی اور محبت سے اس مسجد کی تعمیرنو اور توسیع کا کام شروع ہوا۔

اس طرح شاہ صاحب ہی کڑیانوالہ کی پہلی جامع مسجد کے بانی قرار پائے۔ اگلا سال ان کے لیے مزید کامیابی کا سال تھا یعنی 1935 ء میں ان کی شادی گجرات کے ایک مرد درویش، حافظ قرآن، سیف اللسان پیر سید فقیر شاہ صاحب کی دختر نیک اختر سے انجام پذیر ہوئی۔ محمد شاہ صاحب کی زوجہ محترمہ انتہائی منکسرالمزاج، پابند صوم و صلوٰۃ، تہجد گزار، نیک سیرت و پاکباز کردار کی حامل ایسی شفیق انسان تھیں کہ لوگ آج بھی ان کے کردار و اخلاق کی مثالیں دیتے ہیں۔

محتشم و مکرم شاہ۔ صاحب خود بھی ایثار و اخلاص کا پیکر تھے اور ان کی ذات خوشبوئے سادگی سے معطر تھی۔ 1940 ء میں شاہ صاحب کو پہلی دفعہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعد ازاں کم و بیش چار مرتبہ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف سے بلاوا آیا اور انہوں نے چار بار حج کیا اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی اس طرح الحاج کہلائے۔ مالک کائنات نے انہیں چار بیٹے عطا کیے۔ سید محمد یوسف شاہ، سید محمد یونس کاظمی، سید محمد الیاس کاظمی اور سید محمد ادریس کاظمی۔

سید محمد شاہ صاحب کی شخصیت سر تا پا غیرت و حمیت دینی سے مزین تھی۔ ناموس رسالت، مقام اہل بیت، اور محبت اولیاءاللہ کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سر پر کفن باندھ کر بے خوف نکل پڑتے۔ تحریک مسجد شہید گنج کا معاملہ ہو یا پیر جماعت علی شاہ صاحب کی ہدایت پر قائد اعظم اور پاکستان کی کھلی حمایت اور تبلیغ کی بات پیر محمد شاہ صاحب ہر دم فعال و متحرک نظر آتے تھے۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے پیغام اور محرکات تحریک پاکستان کی دعوت کے لیے کشمیر تک کا سفر کیا۔

جرأت و بہادری ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ پچاس کی دہائی میں احمدیت کا مسئلہ ہو یا بھٹو دور کی ختم نبوت تحریک وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر حرمت دین کا علم بلند کرتے رہے۔ ختم نبوت تحریک میں وہ گرفتار بھی ہوئے اور انہیں تھانہ کڑیانوالہ میں رکھا گیا لیکن دنیاوی تکالیف و صعوبتیں کبھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا کر پائیں۔ وہ بے لوث دیندار تھے اس لیے بے خوف بھی تھے۔ کڑیانوالہ قادیانیت کا بڑا گڑھ تھا اور یہاں کی معاشی، سیاسی اور سماجی قوت انہی کے پاس تھا۔

چنانچہ ختم نبوت کی للکار کو عوامی پکار بنانے کے لیے اس علاقہ میں 1969 ء میں سید محمد شاہ کاظمیؒ نے جشن عیدمیلادالنبیﷺ کے جلوس کا آغاز کیا۔ یہ جلوس دینی و روحانی عقیدت کا مظہر ہوتا تھا۔ گزشتہ اکیاون سالوں سے یہ جلوس میلادالنبیً پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ تاریخ کا یہ دلچسپ پہلو ہے کہ شاہ صاحب کا آغاز کردہ یہ مثالی جلوس ہمیشہ مختلف قسم کے مخالفین و حاسدین کے نشانے پر رہا لیکن شاہ جی کی برکت سے اس جلوس کی مرکزیت آج بھی جاری و ساری ہے۔

اس جلوس کی قیادت وہ خود کرتے تھے۔ ان دنوں کڑیانوالہ مین بازار والی مرکزی جامع مسجد انوار مدینہ دینی محافل کا مرکز ہوتی تھی۔ بڑے بڑے علمائے کرام علامہ احمد سعیدکاظمی ملتانی، مولانا عمر اچھروی افتخارالحسن شاہ فیصل آبادی، سید یعقوب شاہ پھالیہ، پیر افضل قادری، محمود شاہ گجراتی، حامد شاہ گجراتی، مدنی صاحب احمد حسین جیسے کئی بڑے بڑے علماء اکثر تشریف لاتے۔ محمد شاہ صاحب کی علمی و دینی وقعت ہی تھی کہ محدث اعظم مولانا سردار احمد لائلپوری، مفسر قرآن مفتی احمد یار خاں نعیمی، مناظر اہلسنت مولانا محمد عمر اچھروی جیسے زعماء ان کے قریبی اور ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔

شاہ صاحب بڑے پکے نمازی تھے شاید ہی زندگی میں کوئی نماز قضا کی ہو۔ ان کی تہجد اور اشراق کی نماز کی بلا ناغہ ادائیگی کے مجھ جیسے گنہگار بھی عینی شاہد ہیں۔ ان کے کردار و سیرت کو دیکھتے ہوئے ہی امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب نے انہیں خلافت بھی عطا کی تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے سائیں گوہرالدین ؒ جینڈڑ شریف والے محمد شاہ صاحب کو بڑی عقیدت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ سید زادہ علم کا سمندر ہے۔

ایک بہت ہی دیندار بزرگ خاتون سے منسوب روایت ہے کہ ان دنوں ولئی کامل پیر سید نصیب علی شاہ صاحب کی خدمت میں دعا کے لیے اس طرف یا محلے سے کوئی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو بڑی شفقت سے فرماتے، ملا ; محمد شاہ کو چھوڑ کر میرے پاس کیا لینے آئے ہو ”۔ شاہ جی نے مسجد کی خدمت ہمیشہ دل سے کی۔ کبھی امامت کی تنخواہ نہیں لی۔ وہ مسجد کی صفائی تک اہنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ وہ مسجد کی دیکھ بھال اپنے بچوں کی دیکھ بھال سے بھی بڑھ کر کرتے تھے۔

میں نے بھی انہی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے مسجد کی خدمت کو ہمارے مزاج کا حصہ بنا دیا تھا۔ تمام طالبعلم مسجد کی صفائی ان کی نگرانی میں بلا ناغہ کرتے تھے۔ صبح فجر کی جماعت سے پہلے وضو کے لیے پانئی کی بڑی مٹی ہاتھ والا نلکا چلا چلا کر بھرنی ہماری مستقل ڈیوٹی تھی۔ پانچ وقت کی نماز صبح و شام قرآن مجید کی پڑھائی جس کی کوئی فیس نہیں دینا پڑتی تھی۔ وہ فرض نمازوں کے علاوہ بہت نوافل پڑھتے تھے۔ ہم کوئی اور جماعت مس ہو جاتی تو کر دیتے لیکن میں فجر کی نماز کی جماعت نہیں چھوڑتا تھا کہ نماز فجر کے بعد شاہ صاحب خشوع و خضوع سے خصوصی وجد آفریں دعا مانگتے تھے۔

خاص طور آخری حصہ اس کا فارسی دعا کا تھا مجھے فارسی تو سمجھ نہیں آتی تھی لیکن کہتے ہیں جو دل سے نکلتی ہے دل تک اثر رکھتی ہے۔ یقین مانیں یہ لکھتے ہوئے بھی میرے کانوں میں اس آواز کی بازگشت سنائی دی ہے تو میں اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا ہوں۔ ناقابل بیاں تاثرات کی حامل روحانی شخصیت تھی ان کا شخصی جمال بھی کمال کا تھا۔ ان کے صاحبزادے سید محمد یونس کاظمی مرکزی امامیہ کونسل کے سیکرٹری جنرل تھے ایکبار مری روڈ راولپنڈی کے مشہور پوٹھوہار ہوٹل میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی ہم لوگ بھی محمد شاہ صاحب کے ہمراہ تقریب میں شریک تھے۔

سٹیج پر ہر مکتبۂ فکر کے لوگ تشریف فرما تھے۔ فقہ جعفری کے بہت ممتاز عالم دین علامہ مفتی نصیرالاجتہادی کا ان دنوں طوطی بولتا تھا وہ خطاب کے لیے مائک پر آئے۔ بولنا شروع ہوئے اور اچانک رک گئے۔ پھر تمہید شروع کی۔ پھر رک گئے اور منتظمین کو بلایا اور ان سے سرگوشی میں پوچھا وہ پہلی لائن میں سامنے کون صاحب بیٹھے ہیں انہوں بتایا محمد شاہ صاحب ہیں یونس کاظمی کے والد ہیں۔ مفتی صاحب سٹیج سے نیچے آئے شاہ صاحب کو پکڑ کر اٹھایا اور سٹیج پر بٹھا دیا۔

پھر تقریر شروع کی اور بتایا کہ میں جب بات شروع کرتا ہوں اور سامنے شاہ جی کے چہرۂ انور پر نظر پڑتی ہے تو میرا ذہن بلینک ہو جاتا ہے ان کی شخصیت اتنی رعب دار ہے ان کے سامنے بولا نہیں جا رہا اس لیے انہیں سٹیج پر لایا ہوں اور پھر رواں تقریر سے حاضرین کے دل جیت لیے۔ مجھے تقریر کی طرف بھی شاہ صاحب ہی لائے۔ وہ ہر ہفتے مجھے نوائے وقت میں چھپے نور بصیرت میں سے ایک منتخب کر کے دیتے جسے میں تیار کرتا اور جمعہ کے روز ان کے خطاب سے پہلے میری تین چار منٹ کی تقریر ہوتی تھی۔ محترم سید محمد شاہ صاحب کے اس اعتماد اور تربیت نے مجھے زندگی میں بہت کچھ دیا۔ آج میری گفتار جیسی بھی ہے اس کے پیچھے شاہ صاحب کی دریافت اور تربیت ہی کارفرما ہے۔ اللہ کریم شاہ جی کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

حضرت بو علی دقاقؒ فرمایا ”غریب وہ نہیں جو نادار ہے بلکہ غریب وہ ہے جس نے دنیا کے بدلے اپنی آخرت بیچ دی۔ پیر سید محمد شاہ صاحب امامت و خطابت اور مسجد کی خدمت کی کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے اور بچوں کی کفالت و گھر کا نظام اپنی ایک اور مہارت حکمت سے چلاتے تھے۔ انہوں نے حکمت و پنسار کی دکان بنائی تھی مین بازار میں یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کا قول ہے کہ توکل روزی کمانے میں مانع نہیں بلکہ کسب و توکل دونوں ہی داخل عبادت ہیں اور اہل توکل کو اتنا پیسہ پس انداز کر لینا جو ان کی ضروریات زندگی کے لیے لازم ہو، معیوب نہیں۔

شاہ صاحب بھی اپنی روزی اپنے کسب حلال سے کماتے تھے۔ ان کی حکمت و پنسار کے ساتھ علاقہ بھر میں ان کے عرق گلاب اور گلقند کے معیار کی دھوم تھی۔ یہ دونوں چیزیں وہ خود گھر میں تیار کرتے تھے۔ اور دور دراز سے لوگ ان کی خریداری کے لیے آتے تھے۔ ان کے بعد ان کے بڑھے بیٹے سید محمد یوسف شاہ صاحب ان کی حکمت کے جانشین بنے اور آج کل ان کے صاحبزادے سید احمد رضا یہی دکان چلا رہے ہیں۔ علاقہ میں جناب؟ محمد شاہ صاحب کی ایک اور حیرت انگیز خوبی کا بڑا چرچا تھا کہ شاہ جی پتے کی درد و بیماری کا علاج تلوار سے کرتے تھے۔

شاہ جی کے بڑی سی تلوار ہوتی تھی اکثر کوئی مریض آ جاتا تو ہم ان کے گھر سے یہ تلوار لے کر آتے۔ مریض مسجد کے حجرے میں لٹا کر شاہ جی میان سے چمکتی تلوار باہر نکالتے اور مریض کے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر تلوار سیدھی سائیڈ سے پیٹ پر رکھ کر دباتے اور زور سے چلاتے تو ہم لوگ جو دروازے کی اوٹ سے دیکھ رہے ہوتے۔ تلوار چلتی دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے کہ ابھی خون نکلا۔ مگر تھوڑی دیر بعد آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے تو مریض اٹھ کر شاہ صاحب کا شکریہ ادا کر رہا ہوتا کہ درد ٹھیک ہو گیا ہے۔

میں جس نے خود یہ منظر درجنوں بار دیکھا آج تک حیران ہوں کہ یہ سب کیسے ہوتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہیں تلوار ہی جعلی تو نہیں اس پر ہلکا سا ہاتھ پھیرا تو اس نے میرا ہاتھ پر زخمی کر دیا تھا۔ ہم نے کئی درد سے کراہتے ہوئے لوگ آتے دیکھے اور انہیں مسکراتے ہوئے خوشی خوشی واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن سب سے بڑا انعام اس کو ملے گا جس نے مسلمانوں اور عام انسانوں کی خوشی کے لیے کام کیا۔

1980 ء کی دہائی کے آغاز میں ہی شاہ صاحب بیمار رہنے لگے اور پھر 1982 ء کے آخر میں انہوں نے شدید ناسازئی طبع کے باعث امامت و خطابت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اور 21 ستمبر 1984 ء کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی سی تیزی سے علاقہ بھر میں پھیل گئی اور لوگوں کی کثیر تعداد ان کے گھر اکٹھی ہو گئی۔ ان کی میت کو تدفین کے لیے اٹھایا گیا۔

ہشت و در رو دیے، بہر و بر رو دیے
چڑھ کے کاندھوں پہ جب وہ روانہ ہوا
آگے آگے مسافر کی بارات تھی
پیچھے پیچھے زمانہ تھا روتا چلا
اک شورش تھا گھر سے ایسے چلا
شہر کا شہر جیسے روانہ ہوا

جنازہ گاہ تک پہنچتے پہنچتے حد نگاہ تک ان کے چاہنے والے نمناک آنکھوں سمیت نظر آ رہے۔ علماء، سیاسی، سماجی راہنماؤں سمیت ان گنت عقیدتمند تھے۔ ان کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اس وقت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے والد شاہ رکن دین عالم کے گدی نشین سابق گورنر پنجاب سید سجاد حسین قریشی آئے تھے کہ راستے میں کوٹلی کوہالہ کے دواڑہ میں گاڑی پھنس بلکہ دھنس گئی۔ ان کی آمد مہں تاخیر کے سبب نماز جنازہ سید محمود شاہ گجراتی نے پڑھائی۔ یہ آج تک اس علاقہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا ایسے لگ رہا تھا سارا ضلع امڈ۔ آیا ہے۔ نماز جنازہ کے بعد ٹانڈہ روڈ پر ہی ان کے لیے مختص مقام پر انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ رب ذوالجلال سید محمد شاہ کاظمی صاحب کے درجات بلند فرما کر اس سچے اور سچے عاشق رسول ﷺ کو شفاعت نبئی رحمت ﷺ عطا فرمائے۔ آمین

پیر سید محمد شاہ کاظمی ؒ بلاشبہ عابد و زاہد انسان تھے لیکن نمود و نمائش سے پاک، وہ ہر قسم کی حرص و ہوس سے بالا قناعت پسند اور شکرگزار فرد تھے۔ اخلاص و محبت ان کی عبادت و ریاضت کی روح تھی۔ عزیز الدین نسفیؒ کتاب الانسان الکامل میں درویشوں کو نصحیت کرتے ہیں کہ ریاضت و عبادت نام و نمود کے لیے نہیں کرنی چاہیے۔ رویش کو چاہیے کہ بقدر ضرورت عبادت کرے اور خدا شناسی کے بعد طہارت نفس حاصل کرے اور دوسروں کے لیے آزار جان نہ بنے بلکہ راحت رساں بنے کہ انسان کی نجات اسی میں ہے۔

انسانوں کو راحت پہنچانا سب سے بڑی عبادت ہے۔ جب انسان اخلاق میں کمال حاصل کر لیتا ہے تو وہ خلیفہ خدا بن جاتا ہے۔ اس قول کی روشنی میں جانچیں تو پیر سیدمحمد شاہ کاظمی ؒ کی ساری زندگی ایک درویش، صوفی اور ولی کی زندگی دکھائی دیتی ہے اس لیے اللہ نے انہیں زندگی میں بھی وقار و احترام سے نوازا اور ان کے سفر آخرت کو یادگار بنا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments