قرنطینہ زدہ زندگی کے شب و روز


”مجھے سال میں دو مرتبہ چھ چھ ماہ کی چھٹیاں درکار ہیں“
یہ ”لطیفہ“ بھلے وقتوں میں موبائل کی سکرین پہ جگمگایا تو بے ساختہ ایک آہ نکلی۔

”یہ نہ تھی ہماری قسمت۔“ اور اس معصومانہ خواہش سے ایک لطیفے کے مانند وقتی حظ اٹھا کر قدم بڑھا دیے کہ۔ ۔ ۔
”تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے“ ۔

لیکن رواجوں سے منحرف دل، چپکے سے، دماغ کے کڑے پہرے توڑتا۔ اس پر ایک حسرت بھری آمین نچھاور کیے بنا رہ نہ سکا۔ اور پھر وہ ہوا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا۔ نہ کسی سماعت نے سنا۔ اور جو ہوا اس کو دیکھ کر دماغ نے دیکھ کر ان دیکھی کی گئی آمین کا صلہ ایک خونخوار گھوری کی صورت میں دیا۔

”ہن بھگتو۔ ۔ ۔“ اور دل کسی معصوم بچے کی سی شرارت کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر وقتی شرمندہ ہوتا یہ گھوری نظر انداز کر گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ بادشاہ سلامت ”کورونا حضور“ تشریف لائے اور تمام دنیا کے ممالک کی سرحدیں پھلانگتے سکندر اعظم کی مانند ہر جانب دندنانے لگے۔ اور پھر مفتوح علاقوں میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا گیا۔ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا۔

ایک مرتبہ تو لفظ ”چھٹیاں“ خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح آیا۔ لیکن کیا کریں اس ناشکرے پن کا کہ دو دن بعد ہول اٹھنے لگے۔ اور دل پابندیوں کے پہرے توڑتا باہر نکلنے کو ہمکنے لگا۔ ”اسی پہ آمین نہیں کہا تھا؟ اب کیا تکلیف ہے“ دماغ نے جھڑکا۔ ”ضرور کہا تھا۔ لیکن اپنی مرضی سے۔ کسی کی کیا مجال کہ مجھے پابند کرے“ دل کی ازلی ہٹ دھرمی عود کر آئی۔

لیکن جب میڈیا نے۔ ۔ ۔ ایک مریض۔ ۔ ۔ دو مریض کی گنتی کا اعلان کسی کارنامے کی صورت کرنا شروع کیا۔ اور موبائل فون والی باجی نے ”کرونا وائرس کی وبا جاں لیوا نہیں۔ خطرناک ہے“ سے ڈرامائی یو ٹرن لیتے ہوئے ”کرونا وائرس کی وبا جاں لیوا ہو سکتی ہے“ کی صورت اپنا بیان بدلا تو دل ٹھٹھکا۔

اررے۔ ۔ ۔ ابھی تو بہت سے کام کرنے ہیں۔ بہت سے خواب پورے کرنے ہیں۔ ان سب میں کسی کے ہاتھوں۔ ۔ ۔ یا دروازوں۔ ۔ ۔ یا کپڑوں۔ ۔ ۔ کی سطح پر پلتے۔ ۔ ۔ ”نادیدہ جرثومے“ کو چھیڑ کر۔ ۔ ۔ خود کشی نما موت کی تو کہیں جگہ نہیں ہے۔

سو دل نے اچھے بچوں کی طرح دماغ کی نصیحتوں کے جواب میں ”جیسا آپ کو مناسب لگے“ کہہ کر سر جھکا دیا۔ اور سعادت مندی کا تمغہ سینے پر سجا کر ”روٹھی تمنائیں“ منانے کو کمر کس لی۔

تمنائیں کیا تھیں۔
فرصت سے کتابیں پڑھنے کی۔
رنگوں سے کھیلنے کی۔
قلم کے زور پر تخیل کے نئے جہان دریافت کرنے کی۔
بادلوں بھرا آسمان ”تاڑنے“ کی۔
انگریزی زبان کی روانی میں انگریزوں کو انہی کہ سرزمین پہ شکست دینے کی۔
مرضی سے سونے۔ جاگنے کی۔

اتوار کے آنے کے بعد ”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں“ کی صدائیں دیتے اتوار کے دامن کو تھامے رکھنے کی۔ ۔ ۔
لیپ ٹاپ میں ایک عرصے سے چن چن کر رکھے گئے کورین ڈرامے دیکھنے کی۔
انگریزی اخبار کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی۔ ۔ ۔
اور لاک ڈاؤن کے آغاز میں جو خود کو دہائیاں دیتے پایا تھا۔
فرصت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہوں میں۔
مصروف اس قدر ہوں کہ کرنے کو کچھ نہیں۔

اور اب یہ حال ہے کہ فرصت سے محظوظ ہوتے لوگوں میں ہم۔ ۔ ۔ سانس لینے کی فرصت کو بھی عیاشی کے زمرے میں ڈال کر ادھورے کام نمٹانے میں لگے ہیں۔ وہ کام جو اس قرنطینہ کے بنا ”ناممکنات“ میں ہی تھے۔

”خوب سونا چاہیے کہ ایسی فرصت کے دن زندگی میں پھر نہیں آئیں گے“
اور
”کوئی بامقصد کام کرنا چاہیے کہ ایسی فرصت کے دن زندگی میں پھر نہیں آئیں گے“ کے مابین لائن آف کنٹرول پر تاحال کشمکش جاری ہے۔ ابھی تک کسی کی برتری ثابت نہیں ہو پائی۔

کچھ حد تک ہی خواہشوں کی تسکین ہو پائی ہے۔ پہلے ڈراموں سے دو دو ہاتھ کیے۔ پھر رمضان کے بابرکت مہینے کے احترام میں بے یقین لیپ ٹاپ شیلف پہ دہرا چھوڑ دیا۔ اور کتابیں تھام لیں۔ آن لائن۔ آف لائن ہر جگہ سے کتابیں لے کر ان کی ذخیرہ اندوزی شروع کی۔ کمرے میں جابجا سانس لیتی مطالعے کی کتابوں کو لگا ان کے نصیب کھل گئے لیکن ”پڑھائی“ کی کتابوں نے ”مطالعے“ کی کتابوں کو مات دیتے ہوئے منہ چڑایا۔ اور شوق اپنی ذات کی ادھوری تسکین کا گلہ کرتا منہ بسور کر غیر معینہ مدت کے لئے ”قرنطینہ“ میں چلا گیا۔ (مجھے یقین ہے کہ یہ دوری محض ایک آواز کی ہے۔ اس کی رگ رگ سے واقف ہوں میں۔ میرے ہاتھوں پلا بڑھا ہے آخر)

سب سے بڑا انقلاب جو ان ایام کی دین ہے وہ ہے شاہزیب خانزادہ اور شہزاد اقبال سے منہ موڑ کر والد محترم کے دست مبارک سے ڈرامہ چینلز کا افتتاح۔ ساری زندگی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان۔ ۔ ۔ گھر اور سرکاری ملازمت کے درمیان پستی امی حضور ہمیں ڈرامے دیکھنے پر سمجھاتی خود اس وبا کا شکار ہو گئیں۔ ابا حضور بھی اس کار خیر میں حصہ لیتے پائے گئے۔ گویا سب کچھ بدل گیا۔ دنیا کے نقشے کی میں کیا بات کروں۔ میرے گھر کے نقشے میں اتنی تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ ان کو قلم بند کرنے کے لئے ایک دیوان درکار ہے۔

اس سے پہلے کوئی ڈرامہ یا فلم کا حساسیت کا متقاضی منظر دیکھ کر آنکھیں بھگوتی ”میں“ ۔ ۔ ۔ اکثر سوچتی تھی کہ یہ حساسیت کہاں سے آئی ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے اپنے والدین کے ڈرامہ دیکھنے کے بعد کیے جانے والے کرداروں کے تذکرے میں مل گیا۔

بھائی جان غم روزگار میں گھلتے۔ گھر سے ایک عمر کی دوری کاٹنے کے بعد ”ورک ایٹ ہوم“ کی نذر ہو گئے۔ ہم جو بہت سے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لئے ان کی دستیابی کے خیال سجاتے خوش فہم تھے۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اور بھائی جان ہیں کہ امی حضور کی خصوصی نگہداشت اور طعام کی بلا تعطل ترسیل کے باعث پھیلنے لگے ہیں۔ دیکھنے والے اس پھیلنے کو حال ہی میں حاصل کردہ ”منگنی“ کے خطاب کا اثر گردانتے ہوئے ”خوشی سے پھولنا“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کہ بہرحال ان سب میں منگنی کا عمل دخل بھی ہے۔ اور پھلنا پھولنا جاری ہے۔ بس قرنطینہ کی طوالت میرے ویر کی آنے والی زندگی پر اثر انداز نہ ہو۔ (آپ سب سے ایک پر خلوص آمین کی درخواست ہے )

ایک اور ”نمایاں“ تبدیلی جو گھر کی حدود سے باہر دیکھنے میں آئی۔ جن ماؤں کو بہترین لباس۔ بہترین برتن۔ اور دیگر اشیاء گھر میں بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے نام سے منسوب کر کے۔ ۔ ۔ خود پر حرام کرتے ہوئے۔ جہیز اور بری کی پیٹیوں میں مقفل کرنے کا خبط لاحق تھا۔ ۔ ۔ انہیں کرونا کی مہربانی سے ان ہڑپہ نما صندوقوں کی کھدائی کرتے پایا گیا۔ ۔ ۔ برآمد شدہ نوادرات کسی اور کے زیر استعمال ہونے کا تصور سچ ہونے کا خدشہ ہے کہ جس نے انہیں ان ”تعیشات“ کے استعمال پر مجبور کیا۔ اور ”پتہ نہیں پھر پہننا نصیب ہویا نہ ہو“ کہتے ہوئے ان افراد کو ”اچھا لباس“ پہنتے پایا گیا۔ نماز قرآن سے ٹوٹے ربط بحال ہوئے۔ ایک دوسرے سے برسوں سے جدا رشتے یہ کہہ کر گلے آن ملے کہ کیا پتہ زندگی کتنی باقی ہے۔

گویا پہلے ”موت“ نے حوزے ساراماگو کے ناول التوائے مرگ کے مرکزی کردار ”موت“ کی طرح خطوط کی ترسیل کے ذریعے موت نے اپنی آمد و تعطیل کی اطلاع کا بندوبست کر رکھا تھا۔ موت کل بھی بے یقین تھی اور آج بھی ہے۔

کہتے ہیں پرانے وقتوں میں مرنے والے کو موت سے پہلے عزرائل گھر کی حدود میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے پھر اللہ نے شاید انسان کی اذیت کم کرنے کی غرض سے یہ سلسلہ منقطع کر دیا۔ لیکن بھلا ہو ہم ناشکروں کا جن کی لاپرواہی کرونا نما عزرائل کی صورت لوٹ آئی۔ ہر ایک کو اپنی موت چلتی پھرتی دکھائی دینے لگی۔

کرونا کو ہر ذہن نے اپنی استعداد کے مطابق سمجھا۔ کسی کو اللہ کا عذاب لگا کسی کو بیرونی سازش لگی۔ کسی کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ ”کہ یہ کاٹتا کیسے ہے؟“ تو کسی کو ملک بھر میں دیر آید درست آئے کے مصداق لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے کے بعد ”لاک ڈاؤن لگنا چاہیے یا نہیں“ کے مخمصے میں گرفتار پایا گیا۔

مجھے شدت سے انتظار تھا کسی بنگالی بابا کے بلند آہنگ دعوے کا جو تڑپتی انسانیت کے مسیحا کے روپ میں سامنے آتا، لیکن افسوس وہ بھی ”انسان“ ہی نکلے۔ سو اب۔
کوئی نہیں جو دکھائی دے۔
کوئی نہیں جو رہائی دے۔

بہت سے کیا؟ کیوں؟ کب؟ نے رولر کوسٹر کی سواری کے عادی لوگوں کو کچھوے کی چال چلنے بلکہ گھسٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کوئی سامنے بھی نہیں کہ ”الزام“ اس کے کاندھے پہ دھر کر اپنا دامن جھاڑ لیں ( جو حضرت انسان کا وتیرہ ہے ) ہر ایک اپنے محاذ پر اکیلا لڑ رہا ہے۔

اجتماعی دکھ یہ ہے کہ احتساب کی پہنچ اب محض اپنے گریبان تک ہے۔
اب اس کے بنا کوئی چارہ نہیں
چلیں یہی کر کے دیکھتے ہیں
شاید کوئی ”بقا ’کی راہ سجھائی دے جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments