بلوچستان میں آن لائن کلاسز کے خلاف طلبہ مظاہرے: ’جہاں بجلی، پانی نہیں وہاں انٹرنیٹ کہاں سے لائیں‘


صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی عمارہ بشیر کو ہزاروں دیگر طلبا اور طالبات کی طرح یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ اپنے علاقے میں آن لائن کلاسز کیسے لیں جہاں انٹرنیٹ تو درکنار موبائل فون سگنلز صحیح نہیں آتے۔

وہ خضدار شہر سے 20 کلو میٹر دور زاوہ کے علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ ہیں۔

رواں برس مارچ میں ان کا دوسرا سمسٹر چل رہا تھا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث انھیں گھر جانا پڑا۔

عمارہ کے گاﺅں میں موبائل کے سگنلز اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں آن لائن ذرائع سے تدریسی عمل جاری مگر طلبا کو مسائل کا سامنا

’جنھیں آن لائن پڑھنا پسند نہیں وہ سیمِسٹر منجمد کروا دیں‘

انٹرنیٹ کی بندش:’قبائلی اضلاع وزیراعظم سے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں‘

ان کے گھر کے قریب موبائل فون کا جو ٹاور ہے اس پر انٹرنیٹ کی ’کنیکٹویٹی‘ بہتر نہیں ہے جبکہ ان کے گھر سے کچھ دور ایک اور ٹاور ہے جس سے کنیکٹویٹی کسی حد بہتر ہے۔

عمارہ کتہی ہیں: ’لڑکے تو اس ٹاور کے پاس جا کر کلاسیں لینے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ایک قبائلی معاشرے میں ایک لڑکی کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے گھر سے دور جا کر ایک ٹاور کے پاس بیٹھ کر کلاس لے۔‘

خیال رہے کہ بلوچستان کے اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے اور اگر ہے تو لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں ان طلبا اور طالبات کے لیے آن کلاسز لینا کوئی آسان سی بات نہیں ہے۔

عمارہ نے بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو آن لائن کلاسیں شروع کرنے سے پہلے کم از کم یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ بلوچستان کے کتنے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور اگر ہے تو اس کی معیار کیسا ہے۔

یہ مشکل صرف عمارہ بشیر کو درپیش نہیں بلکہ ضلع خضدار ہی کے علاقے چشمہ زہری سے تعلق رکھنے والی نعیمہ زہری بھی اسی طرح کی پریشانی سے دوچار ہیں۔

وہ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی سے میڈیا اینڈ جرنلزم میں بیچلرز کر رہی ہیں۔ ان کا ساتواں سمسٹر چل رہا تھا کہ یونیورسٹی کی بندش کی وجہ سے ان کو کوئٹہ سے گھر جانا پڑا۔

نعیمہ کہتی ہیں کہ ’جن علاقوں سے ہمارا تعلق ہے وہاں پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے پاس بجلی اور پانی نہیں تو وہ انٹرنیٹ کہاں سے لائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ آن لائن کلاسوں سے پہلے انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی ضروری تھی اور اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی اور تعلیمی اداروں کو بھی نہیں کھولا جا سکتا تو پھر آئندہ برس مارچ سے دوبارہ کلاسیں شروع کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کا وقت ویسے بھی ضائع ہو رہا ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں میں آن لائن کلاسیں نہیں لے سکتی ہیں۔

بولان میڈیکل یونیورسٹی کی فورتھ ایئر کی طالبہ ڈاکٹر شالی بلوچ کا تعلق کوئٹہ سے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر دور تربت سے ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے ضلع ،کیچ میں سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر گذشتہ چار پانچ سال سے موبائل فون پر انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیچ کی طرح بلوچستان کے متعدد دیگر علاقوں میں بھی سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے فون پر انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے جبکہ ڈی ایس ایل کی سہولت صرف شہری علاقوں تک محدود ہے۔

’جن طلبہ کے گھر شہروں میں نہیں وہ کیسے آن لائن کلاسوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔‘

سہولت کے بغیر آن لائن کلاسیں شروع کرنے کے خلاف طلباءکا احتجاج

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کے تحت جب بلوچستان میں یونیورسٹیوں کی جانب سے آن لائن کلاسیں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تو بلوچستان کے اکثر طلبا تنظیموں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔

اس کے خلاف مشترکہ مظاہروں کے دوران طلبا تنظیموں کا کہنا تھا کہ وہ بنیادی طور پر آن لائن کلاسز کے خلاف نہیں ہیں لیکن جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں یا اس کی سپیڈ نہ ہونے کے برابر ہے ان علاقوں کے طلبا کیا کریں۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ آن لائن کلاسیں شروع کرنے سے پہلے جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں پہلے وہاں اس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور جن علاقوں میں سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے بند ہے اس کو بحال کیا جائے۔

کوئٹہ اور دیگر شہروں میں مظاہروں کے بعد مختلف یونیورسٹیز اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں علامتی بھوک ہڑتال کیمپ بھی قائم کیے۔

خضدارمیں بھوک ہڑتالی کیمپ میں بھیٹے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بی ایس میڈیا اینڈ ماس کمیونیکیشن کے طالب علم عبدالعزیز کو بھی یونیورسٹی بند ہونے کے بعد اپنے گھر آنا پڑا۔

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں طلبا ایک جائز مسئلے کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن انٹرنیٹ کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم یونیورسٹیوں اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں کو کھول دیں۔

’جب بازاروں کو کھول دیا گیا ہے اور ٹرانسپورٹ چل رہی ہے تو اس کے بعد بڑے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ایس او پیز کے تحت بڑے تعلیمی اداروں کو کھولا جائے تاکہ جن طلبہ کو آن لائن کلاسیں لینے میں دشواری ہے وہ ان تعلیمی اداروں میں یا ان کے ہوسٹلز میں اپنی کلاسیں لے سکیں۔

عبد العزیر نے کہا کہ ’یونیورسٹیوں کے طلبا اور طالبات پرائمری کلاسوں کے بچے تو نہیں کہ وہ احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھ سکتے۔

’ہم بازاروں میں آنے والے لوگوں اور گاڑیوں کے اندر سفر کرنے والے مسافروں کے مقابلے میں بہتر انداز سے ایس او پیز کا خیال رکھ سکتے ہیں۔‘

طلبا تنظیموں کی طرح بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ آن لائن کلاسز کے حوالے سے طلبا کے مسائل حل کیے جائیں۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے آن لائن کلاسز کے دوران طلبا و طالبات کو درپیش مسائل پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے طلبہ کو کسی بھی قسم کی سہولت دیے بغیر ہی آن لائن کلاسز کا اجرا کر دیا۔

پارٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کے باعث طلبا و طالبات اور ان کے والدین پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا موقف

اسلام آباد میں ہایئر ایجوکیشن کے ترجمان طارق بونیری کے مطابق آن لائن کلاسز تک رسائی نہ ہونے کی وجوہات جو بھی ہوں ہائیر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹیوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ متبادل ذرائع اختیار کریں۔

یہ متبادل ذرائع میل، کوریئر سروس، واٹس ایپ، ٹیکسٹ یا کوئی شراکت دار ادارے مثلاً کالجز وغیرہ ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہایئر ایجوکیشن کا بڑا مقصد معیاری تعلیم کو یقینی بنانا اور فروغ دینا ہے اور کورونا وائرس کے بحران کے دوران آن لائن کلاسز کے ذریعے طالب علموں کے سمیسٹرز کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔

حکومت بلوچستان کا موقف

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بمشکل 30 سے 35 فیصد علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب انٹرنیٹ نہیں ہو گا تو پھر آن لائن کلاسز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔

’صرف انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے لیپ ٹاپ اور دیگر ضروری ڈیوائسز کی بھی ضرورت ہو گی اور جن طلبہ کے پاس وسائل ہوں گے وہ تو یہ لے سکتے ہیں لیکن جو غریب ہوں وہ یہ ڈیوائسز کہاں سے لائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی کے مسائل بھی ہیں۔

لیاقت شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں طلبہ کے جو مسائل ہیں حکومت بلوچستان ان کا جائزہ لے رہی ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کا کوئی بہتر حل نکلے۔

اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے رجسٹرار ولی الرحمان سے متعدد بار رابطے کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp