کھیل ابھی شروع ہوا ہے


2007 کی عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد عدلیہ بھی ایک طاقت کے مرکز کے طور پر سامنے آئی ہے، مشرف کو نہیں پتا تھا کہ وہ افتخار چوہدری کو معزول اور بے عزت کر کے ایک ٹائم بم سیٹ کر رہا ہے جو نہ صرف اس کی حکومت کو اڑا دے گا بلکہ اس کی جلاوطنی کا باعث بھی بن جائے گا، لیکن طاقت کے نشے میں مدہوش جنرل مشرف کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس فیصلے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، بحالی کے بعد پھر عدلیہ نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا، پہلے صرف طاقت کا ایک مرکز تھا جہاں سے طاقت کے سبھی سرچشمے پھوٹتے تھے، لیکن عدلیہ بحالی کے بعد طاقت کے دو مراکز بن گئے ہیں۔

پہلی لڑائی جس میں مشرف کو شکست ہوئی، یا دوسرے الفاظ میں طاقت کے سر چشمے کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد پھر دونوں مراکز کا آمنا سامنا ہونے کی نوبت نہیں آئی، دونوں مراکز ایک ہی صفحے پر تھے کہ سیاسی حکومتوں کو ذرا پیندے میں رکھا جائے وہ چاہے سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ ہو یا نواز شریف کی اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر برطرفی ہو۔ نواز شریف نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی یا یوں کہئیے کہ کچھ کالم نویسوں نے ان کو طاقت کے انجکشن لگا کر کھڑا کرنے کی آخری سعی کی لیکن شہباز سے ممولا تو اقبال کے کلام میں ہی لڑ سکتا ہے حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور پھر ممولے نے اڑان بھری اور اڑان جاکر لندن پر اختتام پذیر ہوئی۔

دونوں ہاتھی آمنے سامنے تب آئے جب 2019 میں عدالت نے اپنے فیصلے میں فیض آباد دھرنے کے پیچھے ”چھوٹے سر جی“ کا ہاتھ بتایا، اور یہ فیصلہ دینے والے کوئی اور نہیں قاضی فائز عیسی تھے، دوسرا پیچا تب پڑا جب آصف سعید کھوسہ نے اپنی میعاد میں واحد ازخود نوٹس آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر لیا، اور سمیت حکومت کے سب کی دوڑیں لگوا دیں، ہانپتے کانپتے اپوزیشن کو ملا کر عجلت میں قانون سازی کی گئی اور سپہ سالار کی ایکسٹینشن کا مسئلہ حل ہوا، لیکن عدلیہ نے اپنی قوت کا اظہار بڑی خوبی سے کر دیا۔

یہ دوسری شکست تھی جس کا سامنا ”اقتدار اعلی“ کو کرنا پڑا، طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، طاقتور کی انا کو شدید ٹھیس پہنچی اور پھر راتوں رات ایک ریفرنس بنا، جج کی اہلیہ کی جائیدادیں منظر عام پر آئیں، اور ایک ریفرنس دائر ہوگیا، میڈیا کا ایک حصہ متحرک ہوا اور جج صاحب کی سات سے بارہ والے ٹاک شوز میں اور سوشل میڈیا پر ”انصافین“ اور کچھ نامعلوم صفحات کے پلیٹ فارم سے کردار کشی شروع ہوگئی، عدالت میں لڑنے کی بجائے میڈیا کی اسکرینوں پر کیس لڑا جانے لگا، مقصد صرف اتنا تھا کہ اس جرات رندانہ کا مزہ چکھایا جائے تاکہ پھر کوئی دوسرا ایسا کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔

عمران خان یا تحریک انصاف کے پاس اس کا سب سے بڑا اثاثہ اخلاقی وجود تھا، جو کہ ان دو سالوں میں کم وبیش نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، لیکن آج کے فیصلے کے بعد اخلاقیات کا جو تھوڑا بہت شائبہ باقی تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے، اتنی جلدی کسی کو اتنی پستی میں گرتے فلک نے پہلی بار دیکھا ہے۔

اس ریفرنس کی حقیقت تو اسی دن کھل گئی تھی جب پہلے اٹارنی جنرل منصور علی خان نے مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیا اور پھر حکومت کے لائے ہوئے دوسرے اٹارنی جنرل نے بھی مقدمے کی پیروی سے معذرت کر لی، اور پھر وزیر قانون کو استعفی دے کر خود یہ مقدمہ لڑنا پڑا، اور یاد رہے کہ یہ وہی وزیر قانون ہیں جو الطاف حسین کو دوسرا نیلسن منڈیلا کہتے تھے، اس ریفرنس کا اور حکومت کے اخلاقی وجود کا فیصلہ اسی دن ہو گیا تھا جب قاضی عیسی کے خلاف حکومتی وکیل فروغ نسیم تھے، یہ فیصلہ تحریک انصاف کے اخلاقی وجود کے تابوت میں آخری کیل ہے، جو سفر اخلاق کی اعلی ترین منزل کے دعوؤں سے شروع ہوا تھا وہ انتہائی قلیل عرصے میں پاتال  پر اختتام پذیر ہوا۔

طاقت کے ان مراکز کے درمیان کشمکش دیکھیں کہاں جا کر تھمتی ہے، کیونکہ یاد رہے کہ 2023 تک اگر سب کچھ نارمل رہا اور ایسے ہی چلتا رہا تو یہی قاضی فائز عیسٰی چیف جسٹس ہوں گے۔ لگتا ہے کھیل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments