نوازشریف اور قاضی فیض عیسیٰ میں فرق



دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ اک شخص نے اک شریر سا جانور پال لیا۔ بڑے بوڑھوں نے، دوستوں نے سیانوں نے سمجھایا یہ تم نے کون سی سی دانشمندی دکھائی ہے۔ یہ جانور تو مداری پالتے ہیں۔ تم خاندانی آدمی ہو۔ کوئی شیر رکھو، چیتا پالو۔ بھینس رکھو گھوڑا پالو۔ مگر اس نے سنی ان سنی کردی۔ وہ شخص کہتا یہ میرا دوست ہے۔ عشق کی لگے راہ دے نال ( عشق کو راستے سے کیا سروکار ) ۔ اب وہ شخص جہاں جاتا جانور اس کے ساتھ ساتھ۔ کبھی اچھل کے کندھے پہ۔ کبھی لپک کے سر پہ۔ عشق جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے۔ ایک دوپہر یہ شخص سورہا اور اس کا پالتو جانور حفاظت پہ مامور۔ ایسے میں کہیں سے اک مکھی آن ٹپکی۔ مکھی کبھی سر پہ بیٹھتی کبھی منہ پہ۔ جانور نے مالک کا چاقو اٹھایا اور مکھی کے درپے۔ ادھر مکھی ناک پہ براجمان ادھر چاقو کا وار۔ مکھی بھی اڑ گئی اور ناک بھی۔

فروغ نسیم کا طنطنہ و فروغ ایم کیو ایم والے الطاف بھائی کے دم قدم سے تھا۔ الطاف بھائی کی دلی اجڑی تو لکھنو کے کوٹھے آباد ہوئے۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔

تم کیا گئے کہ لٹ گیا سامان زندگی
ہم ہوگئے ہیں بے سروساماں ترے بغیر

تم کیا گئے کہ میں لٹ گیا۔ الطاف بھائی کا فروغ ختم ہوچکا۔ وہ دن اور تھے جب الطاف بھائی کا وکیل بغیر دلیل جیتتا تھا۔ دور تک گونج نہیں ہے کسی شہنائی کی۔ یہ فروغ نسیم بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہے۔ وہ دن لد گئے جب الطاف بھائی کا نام چلتا تھا۔ سلام ہے ان ہستیوں کو ان وزیروں، مشیروں کو جنہوں نے قاضی فیض عیسیٰ والے کیس کا ڈول ڈالا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا انتخاب اس پہ مستزاد۔ ابھی تو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے کیس میں وکیل صاحب نے دھوم مچائی تھی۔ وہاں وکیل صاحب کی قابلیت اظہر من الشمس تھی۔ وہ تو بھلا ہو جج صاحبان کا انہوں نے ہاتھ ہولا رکھا۔ خراج تحسین ہے ان ہستیوں کو جن کی نگاہ ناز فروغ نسیم پہ آکے رکتی ہے۔ کہاں آ کے رکنے تھے راستے۔ اور حیرت ہے یہ وکیل صاحب بھی عزت افزائی کے لیے بے خطر آتش نمرود سمجھ کے کود پڑتے ہیں۔ ویسے جن مشیروں نے حکومت کو قاضی فیض عیسیٰ کا ریفرنس دائر کرنے کا مشورہ دیا انہیں تمغہ عطا ہونا چاہیے۔ تمغہ خجالت۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

ویسے قاضی فیض عیسیٰ صاحب کا کیس سیدھا سادھا تھا۔ جہاں ایک جج نے قانون کے متعین دائرہ کار میں رہ کر اپنی بے گناہی ثابت کی۔ اس سے نہ تو عدلیہ بے گناہ ثابت ہوئی نہ ہی باقی معزز جج معصوم عن الخطا ٹھہرے۔ دوسرا اس کیس کا تعلق کسی بھی طرح شریف برادران یا اپوزیشن سے نہیں ہر چند اپوزیشن کی ہمدردی و حمایت ہر اس شخص کے ساتھ ہے جہاں حکومت کی سبکی ہو۔ صفحہ زیست کے اوراق سے گرد جھاڑیں تو ایسی ہی ایک دوپہر کا ایک دھندلا سے منظر نگاہوں میں تیرتا ہے۔

جہاں ایک حاکم وقت اور تین دفعہ کا وزیر اعظم کٹہرے میں کھڑا تھا۔ اک طرف اوج کمال تھا تو دوسری طرف ذلتوں کی پاتال۔ صدائے کن فیکون تو مسلسل آئی۔ شہود پہ کیا ابھرتا ہے تو یہ وہی جانتا تھا جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ میاں نواز شریف ولد محمد شریف کو وقت نے پکارا تھا۔ پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔ ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں کہیں سے کوئی صدا نہ آئی۔ چہ کنم عقل بہانہ جو۔

انتظار پہ انتظار تاریخ پہ تاریخ۔ پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا۔ افسون انتظار تمنا کہیں جسے۔ موقع تھا میاں صاحباں بار ثبوت اٹھائیں۔ اپنی اور اپنی نسلوں کو سرخرو کریں۔ میاں صاحب کوئی گنگو تیلی تو نہیں جس نے حساب کتاب نہیں رکھا۔ وہ تو بہت بڑے کاروباری آدمی تھے۔ جن کے ہاں آڈٹ، اکاؤنٹ، حساب کتاب، اندراج کا مربوط نظام تھا۔ ان کے ہاں تو روپے آنے کی بھی لکھت ہوتی تھی۔ میاں صاحب بار ثبوت میں کیا لائے۔ کیلیبری فونٹ، قطری خطوط۔ قاضی فیض عیسیٰ ثبوت میں کیا لائے رسیدیں۔ یہ ہوتا ہے گنہگار اور بے گناہ کا فرق۔
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments