میں نے ہجرت نہ کی کنارا کیا


آج سے تقریباً پچیس سال پہلے میں دو ماہ بعد گھر آیا تو علم ہوا کہ ماسٹر عبدالحکیم صاحب بیمار ہو گئے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کل صبح ان کی بیمار پرسی کے لیے جاؤں گا۔

ماسٹر عبدالحکیم آٹھویں جماعت تک میرے باقاعدہ استاد رہے تھے۔ اس زمانے میں ہر کلاس کا ایک فارم ماسٹر ہوتا تھا جسے اس کلاس کے طلباء کو نصاب میں شامل بیشتر مضامین پڑھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی اور اکثر اگلے سال وہ نئی کلاس میں پھر انہی طلباء کا فارم ماسٹر بن جاتا تھا۔ اس طرح میں نے ان سے چار سال تمام مضامین پڑھے تھے۔ اس کے بعد ان کی پوسٹنگ گاؤں سے دور کسی اور سکول میں ہو گئی۔ ان کا پرانا گھر ہمارے گھر کے بالکل قریب تھا اس لیے جب وہ شام کو گھر آتے یا پھر سردیوں کی طویل چھٹیوں کے دوران جن کے فوراً بعد سالانہ امتحانات ہوتے تو ان سے ملتے ملاتے ہم اردو یا انگریزی کا کوئی مشکل لفظ یا پھر تاریخ اور معاشرتی علوم کا کوئی نکتہ ضرور پوچھتے۔

خود ان کی تعلیم میٹرک تھی لیکن گاؤں کے ذہین طلباء بی۔ اے اور ایم۔ اے کی تیاری کے لئے ان سے بطور ڈسکشن رہنمائی حاصل کرتے۔ البتہ ایک بات طے تھی کہ جغرافیہ کے مضمون میں ان کو مات دینا ممکن نہ تھا۔ خدا جانے انہیں نویں، دسویں میں کس استاد نے اور کس انداز سے تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا تھا کہ وہ نقشے یا گلوب کی مدد سے تمام براعظموں، ان میں واقع ممالک، ان کی آزادی کی تاریخ تمام جزئیات کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ حتیٰ کہ دنیا کے تمام بڑے شہروں کے نام اور ان سے متعلق چیدہ چیدہ واقعات انہیں ازبر تھے۔

ریٹائرمنٹ کے قریب انہوں نے اپنا نیا گھر گاؤں سے تقریباً دو کلومیٹر دور کھیتوں میں بنایا تھا جہاں پر وہ اب پچھتر سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہ رہے تھے۔

میں اگلی صبح دو ساتھیوں امجد اور یوسف جو میری طرح ان کے سٹوڈنٹس رہ چکے تھے کے ہمراہ ماسٹر عبدالحکیم کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ کھرپہ لیے اپنے باغ میں گوڈی کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے ہنس کہ کہا کہ صرف کمر میں درد تھا جس کا علاج وہ ہمیشہ صبح شام ہلکا پھلکا کام کر کے کرتے ہیں۔ ہم نے ان کے ہاتھ دھلوائے اور وہ کام چھوڑ کر ہمارے ساتھ درختوں کے نیچے رکھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ ماسٹر صاحب نے امجد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری لینے اور اچھی نوکری ملنے کے بعد تم محلے میں لڑائی جھگڑے نہیں کرتے ہو گے۔ امجد نے کہا کہ عملی زندگی میں آنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہمارا معاشرہ آسانی سے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ سرکاری دفاتر میں کوئی ملازم میرٹ پر نہیں چلتا اور نہ ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسے میں مجھے کسی سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے۔

استاد محترم نے کہا کہ اگر ہم میں سے کچھ لوگ زیادہ سمجھدار ہیں اور سمجھتے ہوں کہ وہ معاشرے کو سدھار سکتے ہیں تو انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا پڑے گا۔ معاشرے میں اتفاق رائے کا حصول آسان کام نہیں۔ مثلاً میں چاہتا ہوں کہ گھر میں ایک بلی پالوں لیکن چھ میں سے گھر کے چار افراد اس کے مخالف ہیں۔ شاید میں زندگی بھر اس کے لیے اتفاق رائے حاصل نہ کر سکوں۔ اب بڑے نظریات اور ایشوز کو دیکھیں جنہیں منوانے کے لئے صدیاں بیت جاتی ہیں مثلاً نظریہ ارتقاء جس کو پیش کرنے یا حمایت کرنے والے اس پر آج تک اتفاق رائے حاصل نہیں کر سکے یا پھر سرمایہ دارانہ نظام جس کے متعلق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ”کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ/ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات“ لیکن سرمایہ دارانہ نظام ہے کہ روز بروز اپنے پنجے اور مضبوطی سے گاڑتا چلا جا رہا ہے۔ جو لوگ اور قومیں بغیر محنت کئیے راتوں رات نتائج کی توقع رکھتے ہیں وہ ہمیشہ مار کھاتے ہیں۔

امجد نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کمزور مزاحمت کرے تو نقصان اور نہ کرے تو بھی نقصان تو ایسے میں کمزور لوگوں اور ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟ ماسٹر صاحب نے کہا کہ انہیں چاہیے کہ وہ وقتی نقصان برداشت کر کے اپنے اصل اہداف کو حاصل کریں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانوں نے کئی مرتبہ ہجرت، مصالحت حتیٰ کہ بعض اوقات پسپائی اختیار کر کے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ماسٹر صاحب تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوئے اور کہا کہ ہجرت، مصلحت اور مرضی سے اختیار کی گئی پسپائی سے کامیابی کی جو راہ نکلتی ہے وہ ہے ”کنارا کرنا“ جس کا مطلب ہے تصادم اور گریز سے حاصل ہونے والے اضافی وقت کا بہترین استعمال۔ پھر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم مکا مار کر کسی پہاڑ کو پاش پاش کر سکتے ہیں یا پھر صرف انتہائی طاقتور خوردبین کی مدد سے نظر آنے والے چھوٹے سے چھوٹے جراثیم کو لات مار کر اسے تباہ کر سکتے ہیں؟

مجھے لگ رہا تھا کہ ماسٹر صاحب اب تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں اور اب ہمیں ان سے مزید سوالات نہیں پوچھنے چاہیں۔ لیکن پھر انہوں نے خود کہنا شروع کیا کہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے کے حق میں آخری اور اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں تمام تصادم اچھائی اور برائی کے درمیان نہیں ہوئے بلکہ لاتعداد مواقع پر اچھائی، اچھائی سے ٹکرا جاتی ہے اور پھر ہم کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں تو بہت اچھے تھے تو پھر وہ کیوں آپس میں ٹکراے؟ ”

امجد اب چار بچوں کا باپ ہے۔ یوسف عرصہ ہوا ملک سے باہر ہے۔ میں اور امجد آج شام گاؤں سے باہر ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے کرونا وائرس کے متعلق تازہ ترین خبروں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ لوگ زیادہ تر خاموش ہیں لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے، چہروں پر پریشانی مترشح ہے۔ شاید اندر کا خوف اب باہر جھانک رہا ہے۔ ہمارے سامنے قبرستان تھا جس میں گزشتہ پچاس سالوں سے لوگ دفنائے جا رہے ہیں لیکن قبرستان کا سائز وہی پرانا ہے۔ قبرستانوں میں پرانی قبروں کو کھرچ کر نئے مکینوں کے لئے گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔

امجد نے مجھ سے پوچھا ”تمہیں ماسٹر عبدالحکیم یاد ہیں؟“ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے پھر پوچھا ”تمہیں ماسٹر صاحب کی قبر معلوم ہے؟“ میں نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ البتہ انہوں نے عدم کے جس شعر کی تشریح پورے ایک پیریڈ میں کی تھی وہ مجھے اچھی طرح یاد ہے یعنی ”جھاڑ کر گرد غم ہستی کو آڑ جاؤں گا میں / بے خبر ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے۔“

اب شام ہو چکی تھی اور اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اچانک مجھے کہانی کا وہ موڑ یاد آیا جہاں ایک زخمی کردار سارا دن تپتے صحرا میں اپنی گمشدہ اونٹنی کو تلاش کرتا ہے لیکن اب اندھیرا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وہ اب مزید نہیں چل سکتا اور کوشش کے باوجود اسے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اچانک دور، بہت دور اسے اندھیرے میں اونٹنی کا ہلکا سا عکس نظر آیا۔ اس نے چند قدم اس سمت میں اٹھائے اور ایک بار پھر سامنے دیکھا لیکن اب اندھیرا روشنی کو نگل چکا تھا جس میں عکس مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments