تبدیلی کا سفر


ارشد بچپن سے ایک شرمیلا بچہ تھا۔ گھر بھر میں آنکھیں میچے ٹہل لگاتا رہتا تھا۔ جو کہتا تھا یا اس سے جو کہا جاتا تھا، اس کے بر عکس کرتا تھا۔ ارشد کی اماں ملک پاؤڈر منگوائیں تو اپنی نا قابل عمل فکروں سوچوں میں مگن دکان پہنچتا تھا۔ اور ٹالکم پاؤڈر لے آتا تھا۔ نیا کرنسی نوٹ لے کر جاتا تھا۔ دکان دار بچہ سمجھ کر پھٹے پرانے نوٹ پکڑا دیتے تھے۔ اکثر سودا تو کبھی نوٹ تبدیل کرانے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ دکان دار بھی ارشد کی ہر چیز تبدیل کرانے کی عادت سے سخت پریشان تھے۔ بعض دکان دار تو ارشد کو سبق سکھانے کے لئے کبھی جعلی نوٹ تو کبھی کھوٹے سکے بھی پکڑا دیا کرتے تھے۔

رفتہ رفتہ ارشد کا یقین اس امر پر راسخ ہو گیا کہ تبدیلی بہتر ہوتی ہے۔ رات سوتے وقت اپنے پلنگ کی بجائے، کبھی دادا تو کبھی دادی کے تخت پر جا کر سو جاتا۔ دادا دادی اس کی اس حرکت پر مسکراتے تھے۔ اور دونوں کہتے تھے، لو تم ہمارے تخت پر آرام کر لو۔ ہم ایک تخت پر گزر بسر کر لیں گے۔ لیکن صبح ارشد اپنے پلنگ پر ہی ملتا۔ سکول سے واپسی پر کبھی کسی کی پنسل تو کبھی کاپی کتاب بھی بدل کر لے آتا۔ اور تبدیلی کے مزے لیتا۔

قارئین، ارشد کو راستے بدل بدل سائیکل چلانے میں بہت مزا آتا تھا۔ چاہے سفر کتنا ہی لمبا اور کھوٹا ہو جائے۔ یو ٹرن دیکھتے ہی مڑ جاتا تھا۔ دیر سے واپسی پر ڈانٹ پڑتی تو آنکھیں میچ کرشرما مسکرا کر پنکچر کا بہانا بنا دیتا۔ گھر والوں کے ساتھ سوسائٹی والے بھی ارشد کی ان حرکات کی وجہ سے اس سے نالاں رہتے۔ ارشد اب بائیس سال کا کڑیل جوان ہو گیا تھا۔ صاحب ثروت اور طاقت ور بیگم عظمی وقار جو ارشد کے پڑوس میں رہتی تھیں۔ ارشد کی ان حرکتوں پر ہنستی تھیں۔ اور سمجھتی تھیں کہ اگر ارشد سوسائٹی کا صدر بن گیا، تو اپنے اشاروں پر اس کو نچانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔

بچے کی سالگرہ کی تقریب میں بیگم عظمی وقار نے سوسائٹی کے رہائشی افراد سے کہا۔ ارشد سوسائٹی کے متوقع انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار حصہ لے گا۔ چونکہ تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اعلان سن کر حاضرین نے خاموشی اختیار کر لی اور انتخابات کا انتظار کرنے لگے۔ بیگم صاحبہ کا بھتیجا جس کا چینی آٹے کا وسیع کاروبار تھا۔ اس کو بھی بیگم صاحبہ نے اپنے منصوبے میں شامل کر لیا۔ بھتیجے صاحب نے اپنے چینی آٹے کے ٹرک پر سوار ہو کر دن رات صدارتی مہم چلائی۔ تبدیلی کے نعرے بھی لگائے۔ لیکن ارشد پھر بھی ہار گیا۔ حسب معمول ہار کا عذر یہی تراشا گیا کہ ٹرک پنکچر ہو گیا تھا۔

بیگم عظمی وقار اور ارشد نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔ اور صدر کے ہر کام میں روڑے اٹکاتے رہے۔ اور تبدیلی کے نعرے لگاتے رہے۔ جس سے سوسائٹی کے امور پر بہت برا اثر پڑا۔ بیگم عظمی وقار اور ارشد کا کہنا تھا۔ موجودہ صدر تیسری بار منتخب ہوئے ہیں۔ اور سوسائٹی میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگلے انتخاب میں بیگم عظمی وقار نے چوکی داروں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ اور عین ووٹوں کی گنتی کے وقت بجلی منقطع کرا دی گئی۔ اب ارشد سوسائٹی کا صدر تھا۔ بیگم عظمی وقار کا بھتیجا اور ان کے وہ سیاسی مہرے جو ہر صدر کی ٹیم میں نگینے کی طرح اس کا بیڑا غرق کرنے کے لئے نصب کیے جاتے تھے۔ اب ارشد کی ٹیم کا حصہ تھے۔

بیگم عظمی وقار ارشد کی جیت اور تبدیلی کے اس سفر پر بہت خوش ہوئیں۔ لیکن حسب سابق فائنانس سکریٹری سے ان کی نہیں بنی۔ سوسائٹی کے خزانے کے امور غیر ملکی تعلیم یافتہ شخصیت کو دے دیے گئے۔ اور بھتیجے صاحب نے سوسائٹی میں مناسب جگہ دیکھ کر چینی آٹے کا سٹال لگا لیا۔ اور دوسری سوسائٹیوں کو بھی سستے داموں چینی آٹا بیچ کر سوسائٹی کے فنڈ سے اپنا نقصان پورا کرتے رہے۔ جب سوسائٹی کے لوگوں کی چیخیں نکل گئیں تو ارشد نے کہا: ”گھبرائیں نہیں۔

کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔“ یہ کہہ کر ارشد نے تو اپنا فرض پورا کر دیا۔ اور بھتیجے صاحب اپنا چینی آٹے کا ٹرک لے کر سوسائٹی سے غائب ہو گئے۔ اور سوسائٹی کے لوگ تبدیلی کو کوستے ہوئے۔ مہنگا چینی آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ اور بیگم عظمی وقار پریشان ہیں کہ کیا کریں اور کیا نا کریں۔ چونکہ تبدیلی مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments