پاکستان ایک ہی جماعت کے خلاف متفق کیوں؟


خبروں کے مطابق عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ عدالت نے صدارتی ریفرنس کو نہ صرف خارج کیا بلکہ اسے بد نیتی پر مبنی بھی قرار دیا۔

مجھے اس بات سے نہ تو کوئی مطلب ہے اور نہ ہی میں اس بحث میں حصہ لینا چاہتا ہوں کہ عدالت کا یہ فیصلہ 100 فیصد مبنی بر انصاف ہے یا اس میں بہت سارے سقم پائے جاتے ہیں۔ میں نہ تو کوئی ٹی وی اینکر ہوں اور نہ ہی میں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اس لئے اس فیصلے کی نہ تو تائید کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی مخالفت۔ میں صرف اتنا عرض کرنا چاہونگا کہ پاکستان میں عدالت کے فیصلے کبھی پورے پاکستان کے لئے متفقہ علیہ ثابت ہوئے ہی نہیں۔

کوئی نہایت اہم معاملے کا حتمی فیصلہ ہو یا کسی معمولی نوعیت کی سزاؤں پر دیے جانے والے عدالتی احکامات، سب کے سب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں۔ ٹی وی اینکرزویسے بھی ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانا فرض اولین سمجھتے ہیں لیکن یہاں فارغ (ریٹائرڈ) ججوں سے لے کر ماہر سے ماہر قانون دان تک عدالت کے ہر فیصلے کی بخیہ ادھیڑتا نظر آتا ہے اور اتنے بڑے بڑے کیڑے نکال کر رکھ دیتا ہے جو دوران سماعت ججز کے پورے پینل کو بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہے ہوتے۔ چنانچہ کل شام سے کل رات گئے تک پاکستان کے ہر ٹی وی چینل پر جسٹس فائز عیسیٰ کے حق میں دیا گیا فیصلہ زبر دست طریقے سے زیر بحث رہا اور فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں ایسے ایسے دلائل سامنے آئے جو سابق وزیر قانون اور موجودہ وکیل استغاثہ اور ان کی ٹیم کے وہم و گمان سے بھی نہیں گزرے ہوں گے ۔

مجھے اس سے بھی کوئی بحث نہیں کہ فیصلے کے حق میں دلائل دینے والے اینکرز حضرات ہوں، بہت قدآور قانون دان یا مخالفت میں بولنے والی ایسی ہی تمام شخصیات، ان میں سے کس کی باتیں اور دلائل زیادہ وزنی تھے، بحث ہے تو صرف اس سے کہ تقریباً 3 دہائیوں سے زیادہ پاکستان کی خصوصی ہوں یا معمول کی عدالتیں، پاکستان کی تیسرے نمبر کی سیاسی پارٹی اور سندھ کی دوسری بڑی پارٹی کے خلاف معمولی ہوں یا اہم فیصلے، سناتی چلی آئی ہیں۔

ان میں سے بہت سارے فیصلے ایسے بھی ہوں گے جس میں انسانی ”مجبوریاں“ بھی شامل رہی ہوں گی جس کی سب سے بڑی دلیل ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا ہے یا ہر آئین شکن انقلاب کو رعایات دینے والے اقدامات، سب میں کہیں نہ کہیں مجبوریاں یا جانب داریاں صاف دیکھی گئی ہیں اور ان کو ہر فورم پر زیر بحث بھی لایا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف سیاسی شخصیات کے خلاف دیے گئے فیصلے جو تا حال اختلافات کا شکار ہیں لیکن 3 دہائیوں سے بھی کہیں زیادہ ایسے تمام فیصلے جو پاکستان کی تیسری اور سندھ کی دوسری بہت بڑی سیاسی جماعت کے خلاف دیے جاتے رہے، وہ پورے پاکستان کو بالکل اس طرح قابل قبول ہوتے رہے ہیں جیسے یہ فیصلے عدالتوں کے ججوں کے لکھے نہیں آسمانی صحائف ہوں جن کے خلاف زبان دراز کرنا عذاب الٰہی کو براہ راست دعوت دینے کے مترادف ہو۔

مجھے پاکستان کی تیسری یا سندھ کی دوسری بہت بڑی سیاسی جماعت کے خلاف دیے گئے کسی بھی عدالتی فیصلوں سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں کیونکہ دنیا کے ہر دین دھرم اور ہر ملک کے آئین و قانون کے مطابق، غلط ہوں یا درست، عدالتوں کے دیے گئے فیصلے حرف آخر سمجھے بھی جاتے ہیں اور دیے گئے فیصلوں کے مطابق سزائیں بھی دی جاتی ہیں، اختلاف ہے تو صرف یہ کہ ٹی وی اینکرز ہوں، تجزیہ و تبصرہ نگار ہوں یا ماہر قانون دان اور ریٹائرڈ جج صاحبان، انھیں کسی بھی عدالتی فیصلے میں کیڑے نکالنے کا اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہے اور اگر اس معاملے میں اختلاف رکھنے کا کوئی قانونی جواز ہے تو وہ جواز 1992 سے لے کر تا حال سندھ کی دوسری بڑی سیاسی قوت کے خلاف جاری کسی بھی قسم کے آپریشن، ریاستی اختیارات کا غیر مناسب استعمال اور بیشمار عدالتی فیصلوں میں کبھی کوئی سقم کیوں دکھائی نہیں دیے جس میں صولت مرزا سے لے کر خالد شمیم اور دو اور ساتھیوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائیں بھی شامل ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پورا پاکستان صرف ان ہی فیصلوں کے خلاف بولنا یا اپنی رائے دینا اپنا فرض سمجھتا ہے جو سندھ کی ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کے علاوہ کسی اور جماعت، سیاسی اور سماجی لیڈر کے خلاف سنائے جائیں؟ گویا پورے ملک میں صرف ایک ہی جماعت ایسی ہے جس کے خلاف تمام فیصلے اور اقدامات احکام الٰہی کے درجے میں سمجھے جاتے ہیں؟

یہی وہ سوچ ہے جس نے بنگالیوں کو ہمیشہ ”بھوکا“ سمجھا اور یہی وہ رویہ ہے جو پاکستان کے تین صوبوں کو مرکز سے دور سے دور کیے جا رہا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا پاکستان اپنے موجودہ رویے کا از سر نو جائزہ لے کیونکہ اب ”بادشاہی“ دور نہیں، جمہوریت کی حکمرانی ہے اور جمہوریت میں جب تک سب کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا وہ پاکستان میں تو کیا، امریکا میں بھی نہیں پنپ سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments