ڈاکٹر میمونہ اور اس کی ”گگو“ !


ہماری پیاری، انوکھی، لاڈلی اور اکلوتی بیٹی میمونہ اظہر کہ اس وقت میڈیکل کالج میں سال آخر کی طالبہ ہے، اور لاک ڈاؤن کے سبب آج کل الائیڈ ہسپتال کے کسی وارڈ کی بجائے گھر میں اپنی ماما کے ساتھ کچن میں ہاؤس جاب کر رہی ہے، اس نے ایک پرشین کیٹ پال رکھی ہے۔ ۔ ۔ لیکن وہ فارسی نہیں بولتی ’عام پنجابی بلیوں کی طرح ہی میاؤں میاؤں کرتی ہے، شاید قوم، قبیلہ اورعلاقہ بھول گئی، کسی نسلی تفاخر میں نہیں، کوئی مسلکی تعصب نہیں۔

آج سے کوئی سات ایک برس قبل اس کا بڑا بھائی عبد الرحیم عرف رومی ان دنوں رومیؒ کے دیس میں جانے کی تیاریوں میں تھا۔ اس کے ایک کلاس فیلو کی والدہ غالباً بلیوں کا کاروبار کرتی تھی، ایک دن اپنے دوست کے گھر سے آیا اور کہنے لگا ’بابا! اس کے گھر میں پرشین کیٹ نے بچے دیے ہیں، وہ اتنے کیوٹ ہیں ناں، اتنے کیوٹ ہیں ناں۔ ۔ ۔ یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں مچ گئی، ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گئیں اور اس کا دل پیار سے پسیج گیا۔

میں ایک بچہ اس سے لے لوں؟ میں نے کہا‘ لے آؤ! کہنے لگا ’اس کی ماما سات ہزار روپے مانگ رہی ہیں، میرا دل بھی نرم پڑ چکا تھا، میں نے فوراً پرس سے سات ہزار نکالے اور اس کے ہاتھ میں رکھ دیے، یہ دیکھ کر فرح بیگم لگیں کوسنے دینے‘ ہم نے آپ کی جیب سے سات سو نکلوانے ہوں تو جیب پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں، یہاں بیٹے کو فوراً سات ہزار دے دیے اور وہ بھی ایک نگوڑی بلی خریدنے کے لیے۔ میں نے کہا ’پگلی! وہ جس لجاجت اور پیار میں ڈوب کر بلی کی بات کر رہا تھا‘ اس طرح اگر وہ کسی لڑکی کی بات بھی کرتا تو میں اسے گھر لانے کی اجازت دے دیتا۔

خیر! اسی شام ایک پیاری سی گرے کلر کی پنچ فیسیڈ پرشین کیٹ ہمارے گھر کا حصہ بن گئی۔ بیگم نے تو فوراً ہاتھ کھڑے کر دیے، اور لگی دینے دہائی ’اس گھر میں اب میں اپنے بچے بھی پالوں اور بلی کے بچے بھی، یہ مجھ سے نہیں ہونے کا، اس گھر میں یا میں رہوں گی یا یہ بلی رہے گی۔ بچوں نے اپنی ماما کو جیسے تیسے راضی کر ہی لیا کہ اس گھر میں انسانوں اور بلیوں دونوں کے بچے رہ سکتے ہیں۔ اب بلی کا نام تجویز کرنے کے لئے بچوں کا تین رکنی بورڈ بیٹھا اور طے پایا کہ کوئی ماڈرن سا نام ہونا چاہیے، عبداللہ نے کہا گوگل رکھ دیتے ہیں، چنانچہ گوگل کا اختصاریہ ”گگو“ gugu نام طے پا گیا۔

اس کا نام ہی ماڈرن نہ تھا، بلکہ کام اور طعام بھی ایک دم ماڈرن۔ یہ گوشت کی بجائے برانڈڈ کیٹ فوڈ کھاتی، دودھ صرف سویٹ ڈش کے طور پر استعمال کرتی اور ہر تین چار ماہ کے بعد اپنے وٹرنری ڈاکٹر سے معائنہ کرواتی۔ اتنی فیس میں اپنے مریضوں سے وصول نہیں کرتا جتنی وزٹ فیس یہ اپنے ڈاکٹر کو دلا دیتی۔ اب تک اس کے تین آپریشن ہو چکے ہیں، جن میں دو بار یہ مرتے مرتے بچی ہے۔ بچے اسے گود میں لے کر ڈرپ لگواتے رہے ہیں۔ قسمت کی بات ہے، جسے پیار مل جائے اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔

یہ گگو رانی ہمارے گھر کا ایسا فرد بن چکی ہے کہ آنکھوں آنکھوں میں سب سے باتیں کرتی ہے، یہ گھر کے ہر فرد کی نفسیات جان گئی، یہ جانتی ہے کہ کس کی کتنی چاپلوسی کی جائے گی تو وہ اسے فوڈ دے سکتا ہے۔ ہماری ڈاکٹر صاحبہ اسے کبھی گود میں اٹھاتی ہیں، کبھی کندھے سے لگاتی ہیں، ہفتے کی شام جب ہوسٹل سے واپس گھر لوٹتی ہیں تو سب سے پہلے اسے گود میں اٹھا کر پیار کرتی ہیں۔ اس کے خالی برتنوں کو دودھ اور کیٹ فوڈ سے بھر دیتی ہیں۔

ہماری میمونہ کی اپنی بلی سے والہانہ محبت اور دن رات اس کی خدمت میں مشغولیت دیکھ میں اسے کہتا ہوں ’بیٹا! اگر اتنی محبت اور خدمت تم انسانوں کی شروع کر دو‘ تو ولی اللہ ہو جاؤ۔ موصوفہ گھر میں باقی انسانوں کے لئے جلاد بنی ہوتی ہے۔ اپنے مزاج کے مطابق سارے گھر کو چلانا چاہتی ہے۔ اس کے موبائل میں اس کی اپنی تصویروں سے زیادہ اس کی بلی کی تصویریں جمع ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ برس ’جب عمرے پر ہمارے ساتھ گئی تو وہاں مسجد نبوی ﷺ میں حیدر آباد دکن سے آئی ہوئی اپنی ہم نام ایک انڈین لڑکی سے اس کی دوستی ہو گئی، میں نے پوچھا‘ کیسے دوستی ہوئی؟ رازدارنہ لہجے میں کہنے لگی ’بابا! اس کے پاس بھی ایک پرشین کیٹ ہے، اس نے مجھے اپنے موبائل سے اپنی بلی کی تصویریں دکھائیں، میں نے بھی اپنی گگو کی تصویریں دکھائیں۔ حرمین شریفین میں جہاں اسے کوئی بلی نظر آتی، فوراً کہتی‘ کتنی بیاری گگو ہے ’ہے ناں؟

ابھی پرسوں کی بات ہے، ایک چھوٹا سا چوہا گھر میں گھس آیا اور ہماری گگو کے ہتھے چڑھ گیا، اس نے اس کے ساتھ بلی چوہے والا کھیل کھیلا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے نگل گئی۔ اب اس دن سے ہماری ڈاکٹر صاحبہ اپنی گگو سے ناراض ہیں، کہتی ہیں ’مجھے تم نفرت ہو گئی ہے گگو! تم نے اتنا گندا چوہا کھا لیا ہے۔ گگو بیچاری حیرت سے اپنی مالکن کا چہرہ دیکھ رہی ہے‘ جیسے پوچھ رہی ہو ’میں نے کیا ”گناہ“ کیا ہے؟

میں میمونہ بیٹی کو سمجھا رہا ہوں، اسے بتا رہا ہوں کہ ہمارے مرشد حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ہیں کہ گناہ سے نفرت کرو، ”گنہگار“ سے نہ کرو۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگوں کو اپنی فطرت کے مطابق کام کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، جو لوگ ہماری فطرت اور پسند کے مطابق کام کریں ’وہی ”پارسا“ ، باقی سب ”گنہگار“ ۔ ۔ ۔ ہر شخص نے یہاں اپنی فطرت کے مطابق چلنا ہے، اگر کوئی اپنی فطرت کے مطابق چل رہا ہے تو اس سے نفرت زدہ لہجے میں بات کرنا ضروری ہے کیا؟ کیا ڈانٹ پھٹکار سے اس کی فطرت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments