سگ لیلیٰ کی ڈور


لندن جانے سے پہلے حشمت صاحب کی بیگم، سرائیکی لہجے میں اردو بولا کرتی تھیں مگر وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ سرائیکی لہجے میں انگلش بولنے لگیں اور نیوین سائین جیسی چمکتی ہوئی لپ اسٹک لگانے لگیں۔ سنا ہے اکثر رات کو حشمت صاحب اپنی بیگم کے دہکتے، چمکتے ہونٹ دیکھ کر ڈر گئے اور ان کی چیخ، ان کے پڑوسی کو اپنے بیڈ روم میں سنائی دی۔

لندن جانے سے پہلے حشمت صاحب کی فیملی اچھی خاصی، سیدھے سادھے دیسی نمونے کی تھی مگر واپس آنے کے بعد ان میں ایک عجیب سا بدلاؤ آ گیا تھا۔ بیٹیاں، پرانی، انگلش فلموں کے انداز کی پھول دار، پھولی پھولی فراکیں پہننے لگیں اور خوبصورت، نازک چھتریاں لے کر چلنے لگیں، بھائی گیلس کے ساتھ، پینٹیں پہننے لگا اور بالوں پر جیل لگا کر پٹیاں جمانے لگا۔ حشمت صاحب کی بیگم، اب گھر میں بھی فل میک اپ میں رہنے لگیں۔ اب ان کے خاندان میں ایک منے سے سفید کتے (رشیئن ڈاگ) کا اضافہ ہو گیا، جس کی ڈور، اکثر ان کی بڑی بیٹی کے ہاتھ میں ہوتی تھی، جسے وہ کتا سارے کیمپس میں دوڑاتا پھرتا تھا۔

بچوں نے اس کتے کی ڈور پکڑنے کی باریاں باندھی ہوئی تھیں۔ ہفتے کے تین دن چھوڑ کر (جن میں وہ ڈور، بیگم حشمت کے انگوٹھیوں اور چوڑیوں بھرے ہاتھوں میں ہوتی تھی، جن کی کھنک اور کتے کی بھونک، پڑوسنوں کو مسلسل ان کا راستہ بتا رہی ہوتی تھی اور وہ باہر جھانکے بغیر ہی جان جاتی تھیں کہ وہ کون سے رخ پر رواں دواں ہیں) باقی چار دنوں میں ان کے چار بچے، باری باری کتے کی ڈور تھاما کرتے تھے۔

ہمیں یاد ہے، جب وہ ہمارے استاد تھے تو اکثر لڑکے چہکا کرتے تھے، ”یار! اپنا حشمو پھر میٹرنیٹی لیو پر چلا گیا ہے“ لڑکیاں ہنس پڑتیں کیوں کہ جب بھی ان کے ہاں ایک نیا بے بی آتا تھا، حشمت صاحب تین مہینے کی لیو پر چلے جاتے تھے اور یہ تقریباً ہر سال ہوتا تھا۔ لگتا تھا جب سے ہم نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، ان کی بیگم اچانک بڑی زرخیز ہو گئی تھیں۔ سال کے سال ایک نیا ماڈل، حشمت صاحب کی خدمت میں، نہیں بلکہ گود میں ڈال دیا کرتی تھیں۔

اپنی لندن سے واپسی کے بعد بیگم حشمت نے پڑوسنوں کی بڑی زبردست دعوت کی، بڑی سی ڈائیننگ ٹیبل کے اوپر ایک الگنی بندھی تھی جس پر لائن سے بہت سارے فارن، تہنیتی کارڈز جھول رہے تھے، جن سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ لندن میں بھی کتنی مقبول تھیں۔ مگر افسوس! ان کے بدلے تیور اور ان کے ہونٹوں پر جمی نیون سائین والی لپ اسٹک بھی حشمت صاحب کو نہ روک سکیں اور انھوں نے بڑے سلیقے سے اسٹیپ بائی اسٹیپ، نئی فیملی پلاننگ کی۔

پہلے بچوں کے ہاتھ سے کتے کی ڈور چھین کر اسے کسی دوست کو تحفے میں دے دیا۔ پھر اکلوتے بیٹے کو گیلس سمیت، ہوسٹل میں جمع کرادیا۔ بیگم اور بچیوں کو ان کے، آبائی گاؤں بھجوا دیا، جہاں ان کے باپ دادا کی پشتوں کی حویلی اور کچھ دور پار کے رشتے دار تھے اور خود اپنی ایک اسٹوڈنٹ سے دوسری شادی رچا لی۔ یونیورسٹی میں اپنے مستقل ٹھکانے کا انتظام کرنے کے لئے، وہ جب چیئرمین تھے تو اپنی ہونے والی دوسری بیگم کو لیکچرار لگوا چکے تھے۔ لہٰذا خود اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہیں یونیورسٹی میں گھومتے رہے (شکر الحمدللہ، یہ قبیح خیال ہمارے معصوم موصوف کو نہیں آیا)

وہ منا سفید کتا، جس کی ڈور ان کی بڑی بیگم کے کھنکتے ہاتھوں میں ہوتی تھی ایک دن، اچانک دوبارہ یونیورسٹی کی ہری بھری، سایہ دار سڑکوں پر نمودار ہو گیا مگر اب یہ ڈور ان کی چھوٹی بیگم کے ہاتھ میں تھی تو یہ راز کھلا کہ کتے کی ڈور کسے تھمائی گئی تھی۔ دراصل یہ ماڈرن زمانے کا سگ تھا جو لیلیٰ سے پہلے مجنوں تک پہنچا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ اچانک حشمت صاحب کی بیگم، کیوں پرفیوم میں نہائی رہتی تھیں اور شوخ رنگ کی لپ اسٹک لگا کر کیمپس میں بے قرار سی پھرا کرتی تھیں۔ وہ بے چاری تو اتنی Insecure تھیں کہ رات کو بھی فل میک اپ میں ہی سوتی تھیں۔

سنا ہے باوجود ریٹائرمنٹ کے حشمت صاحب کے ہاں نئے بچوں کی آمد کا سلسلہ نہیں ٹوٹا ہے اور اب وہ مستقل میٹرنٹی لیو پر رہتے ہیں۔ بیگم پڑھانے جاتی ہیں اور وہ بچوں کے پیمپرز بدلنے کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے میں، نئی ماسی کی مدد بھی کرتے ہیں اور اسے ہل کر پانی بھی نہیں پینے دیتے ہیں۔ ایپرن باندھے کبھی ہنڈیا بھون رہے ہوتے ہیں، کبھی ماسی کی پکار پر قلانچیں بھرتے، دوڑے چلے جاتے ہیں، جہاں بھی وہ بلائے۔ اب بس انتظار اس بات کا ہے کہ اس منے سے کتے کی ڈور کب ان کی دوسری بیگم کے ہاتھ سے چھوٹ کر ماسی کے ہاتھ میں جاتی ہے اور کب ان کی دوسری بیگم، نیوین سائین جیسی شوخ لپ اسٹک لگا کر، پرفیوم میں نہانے کا اہتمام کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments