معصومیت


سب تو مہنگی ہندی اے معصومیت، سوہنے تاں انج لوک بتھیرے ہندے نے۔ ۔ ۔
یہ شعر ڈاکٹر ستندر سرتاج کے ایک گیت سے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یوں تو بے شمار لوگ حسین و جمیل اور خوبصورت ہوتے ہیں مگر معصومیت کا کوئی مول نہیں۔

بظاہر تو یہ ایک سادہ سا شعر ہے مگر غور کرنے پہ اس کے اندر پنہاں راز افشا ہوتے ہیں۔ میں نے اس فلسفے کو حقیقت میں سمجھنے کی کوشش کی تو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مجھے حقیقی زندگی میں اس کی کوئی مثال نہ مل سکی مگر میری جستجو جاری رہی۔

فیری میڈوز میں گزری وہ رات جب میں کھلے آسمان تلے بیٹھا قدرت کے حسین ترین مناظر میں سے ایک سے لطف اندوز ہو رہا تھا، تا حد نظر وسیع آسمان پہ بے شمار ستارے پوری آب و تاب سے جھلملا رہے تھا گویا کہ کوئی درویشوں کا گروہ ایک دائرے میں صوفی رقص میں مہو ہو جو دنیا و مافیا سے بے نیاز اللہ کی حمد و ثنا میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ میری عقل کے بند دروازے پہ سوچ کی دستک ہوئی اور اس نے بتایا یہی تو معصومیت ہے۔

اسی دوران ایک طرف دیکھتا ہوں تو کچھ ستارے میرے اتنے قریب ہیں کہ ابھی میری جھولی میں اتر جائیں گے اور وہ آسمان سے اتر کر ریفلیکشن لیک کے شفاف پانی میں غوطہ زن ہو رہے ہیں اور یکے بعد دیگرے ڈبکی لگا کر جھیل کے ٹھنڈے پانی میں گرمی پیدا کر رہے ہیں، یوں تو آسمان ایسے ستاروں سے بھرا پڑا تھا مگر وہ جو اس لمحہ موجود میں غوطہ زن تھے ان کی معصومیت کچھ اور ہی تھی جو لفظوں میں ناقابل بیاں ہے اور میں اسی معصومیت کی شراب کہ چند گھونٹ حلق سے اتار کر مدہوش ہو چکا ہوں بالکل اس مے نوش کی طرح جو آخری گھونٹ وہ مدہوش ہونے سے پہلے بھرتا ہے مگر میں تو پہلے ہی گلاس سے قدرت کی اس معصومیت میں مدہوش ہو کر نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔

‌اگلی صبح نسیم سحر کے اک جھونکے نے جب میرے رخسار کو بوسہ دیا تو آنکھ کھل گئی اور میں اس سحر انگیز خوبصورتی کا نظارہ کرنے کنارے تک چلا آیا جہاں نیچے دریائے سندھ اپنی تند و تیز موجوں کے ہمراہ رواں دواں تھا کہ جیسے اس کے راستے میں آنے والی ہر شے کو ریزہ ریزہ کر دے گا اور اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ مگر سامنے دیو مالائی داستانوں والا کوہ قاف یعنی نانگا پربت اپنی ہیبت ناک آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا کہ اچانک ایک ایوا لانچ ہوئی اور نہ جانے کتنے ٹن بڑا برف کا پہاڑ ٹوٹ کر نیچے آ رہا تھا جو اپنی رفتار سے ہر گز طوفان نوح سے کم نہ لگ رہا تھا۔

چند لمحوں میں یہ منظر اپنی دہشت کو لیے نظروں سے اوجھل ہو گیا اور میرے دل میں خوف کے نشاں چھوڑ گیا کہ اگر اس کے راستے میں کسی کوہ نورد کا کیمپ ہوا یا کوئی کوہ پیما اس کی بلندی سر کرنے کو بڑھ رہا ہو تو اس کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ ابھی میں انھیں سوچوں میں گم تھا کہ منظر یک لخت تبدیل ہو گیا جب سورج کی پہلی کرن اس مائٹی نانگا پربت کے سینے پر پڑی وہ پہاڑ جو اپنی دہشت سے ڈرا رہا تھا جو کلر ماؤنٹین چند لمحے قبل اپنے غصے کا اظہار کر چکا تھا اب کچھ اور ہی نظارہ پیش کر رہا تھا۔

جوں جوں سورج کی روشنی بڑھتی گئی نانگا پربت کی سفید برفیلی چادر سورج کی کرنوں سے مہک اٹھی اور سفیدی اور پیلاہٹ کا ایسا منظر پیش کر رہی تھی کہ جیسے کسی لیونارڈو ڈا ونچی نے اپنے برش سے کینوس پر کوئی مونا لیزا بنا دی ہو مگر پھر بھی وہ اس مونا لیزا (نانگا پربت) کی خوبصورتی اور معصومیت کینوس پہ قید کرنے سے قاصر ہو۔ ایک عجیب پراسراریت اس لمحے کو مزید پراسرار بنا رہی تھی مگر اسی خوبصورتی میں ایک خاص معصومیت تھی جو میں محسوس کر سکتا تھا۔

سورج کی وہ معصوم کرنیں اس مائٹی نانگا پربت کی برف کو اپنی محبت کی گرمی سے پگھلا رہی تھیں اور اس کی دہشت معصومیت میں بدل رہیں تھیں اس سے پہلے وہ خوبصورت اور دہشت ناک تھا مگر اب وہ معصوم تھا۔ بالکل جیسے پنجاب کے کسی گاؤں کی کوئی الہڑ مٹیار، کوئی سوہنی، کوئی ہیر، کوئی صاحبہ صبح صادق کے وقت گھڑا سر پہ اٹھائے پانی کے کنویں پہ جا رہی ہو اور اس کے سر پہ موجود پیلے رنگ کی چنی اس کے سفید و سرخ رخساروں کو ایسے چھو رہی ہو کہ گویا وہ اسے چوم کر اپنی خوش نصیبی پہ نازاں ہے اور وہ اپنے گرد و پیش سے بے پرواہ اپنے پراندے کو گھماتے ہوئے پانی کا مٹکا اٹھائے اور معصومیت کے پیرہن میں لپٹی آگے بڑھ رہی ہو۔

مگر معصومیت کا اصل مطلب مجھے قدرت نے یہاں سمجھایا جب میں اس معصوم چہرے سے آشنا ہوا جو اب تک میرے لیے اجنبی تھا مگر وہ ناآشنائی چند لمحوں میں ایسے دور ہوئی کے جیسے صدیوں کی شناسائی ہو مگر فاصلہ طہ کرنے میں زندگی کے کئی ماہ و سال بیت گئے اور بے اختیار لبوں سے نکلا ”بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے“ ۔ اس شخص میں قدرت کی صناعی کے وہ پنہاں شاہکار نظر آئے جس میں اس نے خوبصورتی اور معصومیت کو یکجا کر دیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا اور اگر حسین اتفاق کہوں تو غلط نہ ہو گا۔

لوگ beauty with brain تلاش کرتے ہیں جبکہ میں beauty with innocence کی تلاش میں تھا کیا یہ حقیقت میں کہیں پائی جاتی ہو گی تو اس کا جواب ہاں ہے وہ شخص اسی زمین پر اسی دھرتی کے سینے پر وہ خوبصورت زمرد ہے جو کسی کان کی ہزاروں فٹ گہرائی میں پایا جاتا ہے مگر میں وہ خوش قسمت ہوں جسے نہ تو پاتال میں جانا پڑا اور نہ ہی عرش پہ بلکہ اسی روئے زمیں پہ میں نے اسے ڈھونڈ نکالا بلکہ اگر یہ کہوں کی قدرت نے ہمادے راستے یکجا کر دیے تو غلط نہ ہو گا اور یہ خوبصورتی اور معصومیت کسی طور بھی نانگا پربت کی اس برف پوش چوٹی سے ہرگز کم نہیں ہو سکتی جس کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ ویسے تو ناقابل بیاں ہے کیونکہ اس سمندر کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر شعر کا سہارا لوں تو ڈاکٹر سرتاج کے الفاظ میں :

تعریف کیویں کرئیے کہ مثال نہیں لبدی،
اسی جو وی لکھ دے ہاں توہین جیہا لگدا،
میں کسے توں پریاں دی اک سنی کہانی سی،
اج اس افسانے تے یقین جیہا لگدا،
جس دن توں نال تیرے نظراں مل گئیاں نے،
سرتاج نوں امبر وی زمین جہیا لگدا۔ ۔ ۔

‌اس ایک شخص نے میرا زندگی جینے کا فلسفہ بدل کے رکھ دیا اور جن سوالوں کے جواب میں تلاش کر رہا تھا وہ مجھے مل گئے۔ ہم اگر چاہیں تو زندگی کے ہر لمحے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں اگر اس میں سچائی کی معصومیت کے رنگ بھر دیے جائیں یعنی حقیقت سے انحراف کی بجائے قدرت کے ان شاہکاروں کی کھوج کی جائے تو یقیناً ہم اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیں گے اور ہر شخص کو اس کے نصیب کا وہ موتی ایک روز ضرور مل جائے گا بشرطیکہ وہ اس کی تلاش محبت اور لگن سے جاری رکھے ہوئے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments