تعلیمی دشمن بجٹ اور طلبہ


تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتے ہے۔ کہا جاتا اگر کسی کی ترقی کو جانچنا ہو تو اس کے تعلیم کے نظام کو دیکھے ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ تعلیم کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا مگر پاکستان میں حالات اس کے برعکس نظر آرہے، ہم موجودہ حالات میں جب دنیا مریخ پر پہنچ چکی ہے۔ ہم 20 سال پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ مگر اس حکومت نے اپنے اپنے دوسرے بجٹ میں بھی سب سے پہلے تعلیمی بجٹ پر کٹ لگا کر تعلیم دشمن ہونے کا ثبوت دیا یاد کرواتا چلو یہی وہ صاحب تھے جو تعلیم کے نام پر نوجوانوں سے ووٹ حاصل کر کے آئے مگر اور آپ سب وعدے بھول گئے۔ مالی سال 20 / 2019 کے بجٹ میں 46 ارب روپے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ آئی سی) کے لیے رکھے گئے تھے جس میں سے 29 صرف مختص کیے گئے۔ اس فنڈ میں 40 فیصد تک کمی واقع آئی اس بجٹ کا نتیجہ کیا نکلا؟

غریب طلبا جو سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے والدین پر فیسوں کے بوجھ میں اضافہ اور دوسری طرف طالبہ پر فیسوں میں اضافے کے ذریعے ان پر اعلی تعلیم کے دروازے بند کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ حکمران اور مقتدر قوتیں تعلیم کو بجٹ دینے پر کیوں رضامند نہیں ہے؟

اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے۔ وہ غریب عوام تک تعلیم پہنچنا کے لئے رضامند نہیں ہے۔ اس کی وجہ ان کے اس اقتدار کو اپنے ہاتھ سے نکل جانے کا ڈر ہے۔ بجٹ کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری نے میڈیا چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بدترین ہائر ایجوکیشن کا بجٹ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لوگ اس بجٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹویٹر پر کئی صارفین دفاعی بجٹ میں اضافے پر بالخصوص نالاں دکھائی دیتے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا پاکستان کو صحت و تعلیم سے زیادہ اسلحہ کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے۔ کی سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل سے پہلے تو بہت بلند وب الا نعرے لگاتی ہیں کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ تعلیم کو اسی جدید طریقے سے استوار کریں گے کہ دنیا میں پاکستان مثال قائم ہوئیں گی۔ مگر وہ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی شکل میں ایک منفرد مثال قائم کرتے ہیں۔ چاہیے وہ پی ٹی آئی کی حکومت ہو یا کوئی اور پارٹی ہو۔

پہلے ہی پاکستان میں میں امرا اور مراعات یافتہ طبقوں کے لئے نجی اداروں کے نام پر پر تعیش تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جن کے مقابلے میں بے سرو سامان سرکاری ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب بچے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سرکاری اداروں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرے جو ان تعلیمی اداروں کا بنیادی حق ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے جب اعلیٰ درسگاہ کے طور پر سامنے آئیں گے تو ان میں پڑھنے والے بچے بھی پراعتماد ہوں۔ اس لیے حکومت تعلیمی بجٹ میں کمی کرنے کی بجائے سرکاری سکول کالجز اور یونیورسٹی کی حالت زار بہتر بنائے۔

دیہی اور پسماندہ علاقوں میں، قائم لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں پر خاص توجہ دی جائے۔ وہاں چاردیواری پانی، بجلی، فرنیچر کی فراہمی کے ساتھ نئے کلاس روم تعمیر کیے جائیں۔ اس طرح ہم ایک تعلیم یافتہ اور آگے بڑھنے والے پاکستان کا خواب پورا کر سکے۔ گزشتہ سال ملک بھر میں طلبہ 29 نومبر کو انہی مطالبات کو لیے سڑکوں پر نکل مگر معمول کے طرح اسمبلیوں میں پھر بل منظور ہوئے اور بات ٹھنڈی کر دی گئی مگر یاد رہے کہ ہم طلبہ روز روز نہیں نکلتے مگر جب پھر نکلتے تو اپنے مطالبات منظور کر جاتے ہیں۔

حسنین شیخ، لاہور
Latest posts by حسنین شیخ، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments