تر دماغوں والے ترجمان



سنا تویہ تھا کہ
زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ
پکار اٹھی ہے میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

بے زبانی اور ترجمانی کا یہ جوڑ اگر اہل سیاست کی نظر سے دیکھیں تو اس کا تعلق دل کے بجائے دلربا کی وہ جیب ہے جو دل کے قریب ہے اور اس میں جان من کی تصویر نہیں ہوتی بلکہ مال دنیا ہوتاہے۔ یہ مال دنیا ہر دلربا کو عزیز ہوتا ہے وہ خواہ دانیال کی شکل میں عزیز ہو، طلال کی شکل میں چودھری ہو یا پھر نہال کی شکل میں ہاشمی، سب اپنے اپنے وقت میں اسے پا کر نہال ہوتے رہے۔ خودساختہ تبدیلی کے اس دور میں بھی چن، چوہان اور گل جیسے نہال ہو رہے ہیں۔

ماشا اللہ ترجمانی کے لئے ان سب کو ایسا تر دماغ ملا ہے اور زبان میں ایسی جادوئی تاثیر بھری ہے کہ کوئی بولے تو اپنی قسمت پھوڑے۔ ایسا تر جواب ملتا ہے کہ مخالف مخالفت بھول جاتا ہے اور وہ ہاتھ کو ہاتھ پر مارتے اور شٹ کہتے ہوئے اس وقت کو کوستا ہے جب بی گالہ میں دورنگی پارٹی پرچم ڈالنے کا موسم تھا اور وہ اس سعادت سے محروم ہو گیا۔ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چک گئیں کھیت۔

ابھی چند روز پہلے ہی شہبازگل صاحب نے فرمایا تھا کہ شوگر ملز والوں کو پتہ نہیں آگے عمران خان بیٹھا ہے۔ اب یہ کتنی بڑی بات ہے اور کتنا بڑا پیغام ہے جو گل صاحب نے دے دیا ایسے ہی تو خان صاحب انہیں پنجاب سے اٹھا کر مرکز میں نہیں لائے تھے۔ ان کی ترجمانی میں کچھ ایسا تھا جو خان صاحب وسیم اکرم پلس سے یہ نگینہ مائنس کرنے میں کامیاب ہوئے اور دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ جب سے یہ نگینہ بزدارکے ہاتھ سے نکلا ان میں بھی عقابی روح پیدا ہونے لگی ہے۔ دوسری طرف قدرت کویہ بھی منظور تھا کہ یہ گوہرخاص اپنا اصل رنگ دکھائے اسی لئے نعیم الحق کو اپنے پاس بلا لیا اور میدان ترجمانی میں موصوف کو شہسواری کے لئے چھوڑ دیا۔

اب حضرت کی صلاحیتیں اور میٹھی میٹھی صلواتیں ہیں جن سے مخالف شفا پاتے ہیں۔ محاذمخالف سے مریم، شہباز یا بلاول بولیں تو ادھر گل صاحب فوراً ٹرائی پوڈ پر کیمرہ فکس کرتے ہیں، کالر مائیک لگاتے ہیں اور دھواں دھار تقریرجھاڑ دیتے ہیں کبھی صوفہ پر بیٹھ کر کبھی کرسی پر اور جب جذبات پر غصہ غالب ہو تو کھڑے کھڑے دشمن پرمنجنیق سے سنگ باری کرتے ہیں۔ گل صاحب کی اس ون مین آرمی شپ سے رپورٹر اور کیمرہ مین بھی خوش کہ کورونا کی وجہ سے وہ جانے کی جھنجٹ سے بچ گئے۔

گل صاحب چونکہ ڈاکٹرصاحب بھی ہیں نبض شناسی بھی جانتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے مریض میں کون سرد مزاج اور کون گرم مزاج ہے اگرچہ نبض دیکھنا حکیموں کا کام ہے لیکن ہمارے گل صاحب کو اس میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ آخر ڈاکٹری کرتے ہوئے انہیں سیاست کی الف ب کا بھی تو پتہ نہیں تھا لیکن انہوں نے پتہ چلا ہی لیا۔ اب وہ ایسے ایسے پتے کھیلتے ہیں کہ دشمنوں کا پتاپانی ہو جاتا ہے۔

آگے عمران خان بیٹھا ہے، ہے تو بڑا تاریخی جملہ اور عنقریب اس پر لطیفہ گڑھنے والے بھی اپنی دکان سجائیں گے لیکن دو سال ہو نے کو ہیں چینی والے، آٹا والے، گندم والے، پٹرول والے، بجلی والے، ملاوٹ والے، مہنگائی والے کیا کسی کو پتہ نہیں چلا کہ آگے عمران خان بیٹھا ہے اور تو اور کیا ٹڈیوں کو بھی پتہ نہیں چل سکا کہ آگے عمران خان بیٹھا ہے آخر کچھ تو ہاتھ ہلکا رکھتے۔ ۔ ۔ آخر اتنی عمران بیزاری کیوں؟ بقول میر

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

(خبردار گل پر پیش ہے اس کے نیچے زیر سمجھ کر پڑھنے کی زحمت نہ کیجئے کیونکہ گل صاحب ایسا مذاق ہرگز پسند نہیں کرتے ) بات ہو رہی تھی ترجمانی اور ترجمانوں کی۔ اس حوالے سے پرانے زمانے بھلے تھے، ایک آدھ ترجمان ہوتا تھا جو وزیر اطلاعات کہلاتاتھا پھر قومی سیاست نے ترقی کی تو ایک وزیر اور دوسرا چھوٹا وزیر یعنی وزیر مملکت بن گیا اوراب چند سال سے جب سیاست سر پٹ گھوڑے کی مانند دوڑ رہی ہے تو وزیروں، مشیروں او رمعاونین خصوصی و غیر خصوصی کی صورت میں ترجمانوں کی ایسی کھیپ تیار ہو گئی ہے کہ الامان و الحفیظ۔

اس کی ابتدا اگرچہ میاں صاحب نے کی تھی لیکن خان صاحب نے اس کو بام عروج بخشا۔ انہوں نے ترجمانی کے الاسٹک کو اس زور سے کھینچا کہ اس میں سے درجنوں ترجمان ٹپک پڑے اور وہ چونکہ اختیارات کی منتقلی کے قائل ہیں اور حال ہی میں انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ پاکستان کا سب سے شاندار بلدیاتی نظام لار ہے ہیں اسی کے پیش نظر انہوں نے بہت پہلے ہی ہر عمر ہر جنس اور ہر قبیل کے ترجمان سردار بزدار صاحب کے حوالے کر دیے کیونکہ وہ کم گو ہیں اور انہیں ترجمانوں کی زیادہ ضرورت ہے اب اس سے زیادہ جنوبی پنجاب والوں کی خدمت اورکیا ہو سکتی ہے۔ لیکن ان ترجمانوں میں سے بعض ایسے احسان فروش بھی نکلے کہ وہ بجائے اس خلعت خاص کی حفاظت کرتے انہوں نے اپنی ہی خانم کی برائیاں کرنا شروع کردیں ایسے میں ترجمانی کا تاج کہاں سلامت رہتا ہے تاج رکھنے والوں نے تاج لے کر شوکاز کا پروانہ تھما ڈالا۔

سوال ایک یہ بھی ہے کہ آخر خان صاحب نے اپنے پاس بہت زیادہ ترجمان کیوں نہیں رکھے ( کیونکہ زیادہ ترجمان تو ان کے پاس پہلے ہی ہیں ) تو اس کی ایک ہی منطق سمجھ میں آتی ہے کہ خان صاحب جس خوب صورتی سے اپنی حکومت کی ترجمانی کرتے ہیں وہ بھلا کوئی اور کیا کر سکتا ہے۔ اس دشت میں فواد آئے، فردوس آئے اور اب فراز ہیں لیکن حکومت کو سرفرازی ہمیشہ خان صاحب کی ترجمانی سے ہی ملی اس میں پیش رو بیچارے کیا کسب دکھاتے۔

بقول شخصے دنیا میں آج بھی وہی کامیاب ہے جو زیادہ بولتا ہے اور ہمارے خان صاحب کو شاید یہ بھی معلوم ہے کہ اسٹار فش روزانہ سیکڑوں انڈے دیتی ہے لیکن وہ اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتی۔ مرغی ایک انڈا دیتی ہے لیکن کڑ کڑا کر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے دنیا مرغی کا شورسنتی ہے اسٹار فش کا ”کارنامہ“ نہیں دیکھتی۔ اس لئے مرغی بنو اسٹار فش نہیں۔ ۔ ۔ لگے رہو منا بھائی!

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments