ذوالفقار علی بھٹو نے فرزند کوئٹہ سے کیا پوچھا؟


کورونا کی وبا نے فرزند کوئٹہ اور ہمارے محسن سید منصور بخاری کو ستر سال کی عمر میں ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا ہے۔ بلوچستان میں جس کسی کا بھی ورق گردانی اور قلم کی روانی سے رشتہ رہا ہے بخاری صاحب ان کے حافظے، علمی تشنگی اور وجدان میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ان کی خوبصورت آنکھیں اور قند میں گندھی ہوئی نفاست سے بھری بھاری آواز آج بھی ہم سب کی سماعتوں میں گونج رہی ہے۔ کتاب سے ان کا پہلا رشتہ بھلے کاروباری ہو لیکن وقت کے ساتھ یہ رشتہ عشق میں ڈھل گیا۔

ان کے والد سید منظور بخاری کوئٹہ میں اپنے وقت کے نامور ڈرامہ رائٹر اور تھیٹر آرٹسٹ تھے جنہوں نے تقریباً چار ہزار ریڈیو ڈرامے لکھے لیکن عارضہ قلب نے فقط 32 سال کی عمر میں ان کی جان لے لی۔ ان کا بیٹا منصور بخاری بارہ سال کی عمر میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہوا لیکن ان کا علمی سایہ آخری سانس تک بیٹے کے سر پر رہا۔

بخاری صاحب کے چچا نے 1962 میں ایک ایسے کاروبار کی بنیاد رکھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بخاری صاحب کی پہچان بن گئی۔ ان کے چچا نے جناح روڈ پر گوشہ ادب کے نام سے کتابوں کی ایک دکان کھول لی جن کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ برٹش دور میں پشتونوں اور بلوچوں کے بارے میں لکھی گئیں کتابوں کی دوبارہ اشاعت اور تراجم کرنا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے 300 کتابیں شائع کیں۔

بخاری صاحب کا نہ صرف کتاب بلکہ بلوچستان کے علمی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ رشتہ کم عمری ہی میں جڑ گیا تھا۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی، غوث بزنجو، نواب بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، عطا شاد، گل خان نصیر سے لے کر نجانے کتنے پشتون بلوچ دانشور، شاعر، محققین نہ صرف ان کے گاہک تھے بلکہ بہترین دوست بھی۔

کتابوں کا انتخاب اتنا اعلی کہ آج بھی اگر آپ ان کی دوسری دکان سیلز اینڈ سروسز تشریف لے جائیں تو یوں لگے گا جیسے بخاری صاحب نے دنیا بھر کے ذوق مطالعہ کو کشید کر اپنے شیلف میں سجا کے رکھا ہے۔ یہاں پر سیاست، ادب، فلسفے، تحقیق، مذہب اور حالات حاضرہ پر پاکستان اور دنیا کی مختلف زبانوں کے شہرہ آفاق ادیبوں اور لکھاریوں کی تصنیفات اور تراجم دیکھنے کو ملیں گے۔

سیاسی شعور کے لحاظ سے بلوچستان شاید پاکستان کا سب سے زرخیز صوبہ ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال ثنا بلوچ کی ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ثنا بلوچ جب 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو اسمبلی کے کم عمر ترین رکن تھے۔ ان کی عمر 25 سال تھی۔ انہوں نے حلف لینے کے بعد جب اپنی پہلی تقریر کی تو اسمبلی میں بیٹھے فخر امام نے سوچا کہ شاید اس نوجوان کا تعلق شاید ایک ایسے خاندان سے ہے جس کا پشت در پشت سیاست کے پیشے سے وابستہ رہا ہے۔ وہ بہت جاندار اور کاٹ دار تقریر تھی جس کا ایک جملہ ملاحظہ ہو،
” اگر بلوچستان کی پچاس سال کی محرومیاں کو ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے تو اسلام آباد کا پتہ پتہ ہمارا مقروض نکلے گا“۔

اس تقریر کے بعد جب فخر امام اور عابدہ حسین نے ثنا بلوچ سے مل کر پوچھا کہ آپ کا کس سیاسی خاندان سے تعلق ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ میں ایک غریب دکاندار کا بیٹا ہوں البتہ میرا سیاسی خاندان بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہے۔

اس فکری پختگی میں اس دھرتی کی محرومیاں پیوست ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر مطالعے کا مزاج اور رجحان باقی صوبوں سے بہت مختلف ہے۔

اس اجتماعی مزاج اور رجحان نے منصور بخاری صاحب کی ذوق مطالعے پر بھی بڑا گہرا اثر ڈالا۔ وہ کتب فروش نہیں بلکہ کتب بین بھی تھے۔ ان کی دکان میں متنوع موضوعات پر دستیاب کتابوں کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی دکان کی کتابیں پڑھتے پڑھتے انہیں کئی مضامین پر اتنا عبور حاصل ہوا کہ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے بحیثیت پرائیویٹ امیدوار کے پانچ مختلف مضامین میں امتحانات پاس کر کے ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں۔

بلوچستان کی مطالعے کے سنجیدہ مزاج اور بخاری صاحب کے ذوق مطالعے نے معیاری کتابوں کے انتخاب میں ان کی مدد کی۔ ان کے بیٹا زعیم بخاری بلوچستان کے مطالعے کے سنجیدہ مزاج کی مثال پیٹرز واٹسن کی مشہور کتاب Ideas: A History of Thought and Invention, from Fire to Freud کی دیتے ہیں۔

جب اس کتاب کی دس بارہ کاپیاں بک گئیں تو بخاری صاحب نے بیس اور منگوائیں وہ بھی جب بک گئیں تو انہوں 200 مزید کتابوں کا آرڈر دیا لیکن پبلشر کو یقین ہی نہیں آیا کہ بلوچستان جیسے صوبے میں اس جیسی کتاب کی اتنی مانگ کیسے ہو سکتی ہے البتہ انہوں نے محض بیس کاپیاں ہی بھیجیں۔ وہ بھی جب بک گئیں تو بخاری صاحب نے 200 مزید کی پھر فرمائش کی تب تک پبلشر کو یقین آ چکا تھا تو انہوں نے اس بار 200 ہی بھیج دیں۔ وہ بھی بک گئیں تو 300 مزید کاپیوں کا آرڈر دیا گیا۔

ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو جب بھی کوئٹہ جاتے تو گوشہ ادب ضرور تشریف لے جاتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ بخاری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، یہ آپ کی دکان کے لئے کتابوں کا انتخاب کون کرتا ہے؟ میں نے پورے پاکستان میں اتنی چھوٹی سی جگہ میں اتنی اچھی کتابیں نہیں دیکھی ہیں۔

بخاری صاحب کو پاکستانی ریاست اور مخصوص مذہبی حلقوں کے بیانیے اور رویے کی اتنی سمجھ تھی کہ جب ایک دفعہ میں نے مارکیٹ میں نئی آئی کتاب After the Prophet شیلف سے اٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھی تو کاؤنٹر سے بخاری صاحب کی بھاری آواز میرے سماعت سے ٹکرائی ”خرید لو، اس پر بہت جلد پابندی لگ جائے گی“ دو سال کے بعد میں نے جب اس کتاب پر پابندی کی خبر پڑھی تو اچانک بخاری صاحب یاد آئے۔

بخاری صاحب کے ”گوشہ ادب“ اور ”سیلز اینڈ سروسز“ نے بلوچستان کے کئی نسلوں کی علمی آبیاری کی ہے۔

بلوچستان میں سینکڑوں سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، پروفیشنل ادارے ہیں لیکن وہاں پر جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ ذہن میں جنم لینے والے سوالات کو سولی چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن طالبعلموں کے ذہنوں میں گردش کرتے یہی سوالات انہیں بخاری صاحب کی دکان کی دہلیز پر آکر چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا طالب علم کو جواب بخاری صاحب کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ہی آکر مل جاتا ہے۔

جس تنقیدی سوچ کو تعلیمی نصاب میں مارنے کی سعی کی جاتی رہی ہے، بخاری صاحب کی دکانیں اسی سوچ کو جلا بخشتی آئی ہیں۔ جس تاریخ کو قتل کر کے نصاب میں دفن کیا گیا ہے اس تاریخ کے اصلی اور سچے چہرے کا دیدار بخاری صاحب کے شیلف میں رکھی گئیں کتابوں میں ہی کیا جاسکتا ہے۔

منصور بخاری صاحب ہم میں نہیں رہے مگر انہوں نے اپنے جوان سال بیٹے زعیم بخاری کو وصیت کی، ”بیٹے علم اور حسن اخلاق کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ کے رکھنا“

(عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور پراگ میں مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments