”خودنمائی“ کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


ذاتی طور پر ہم نے بہت پہلے تسلیم کر لیا تھا کہ سعادت حسن منٹو ہم سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ اس اعتراف کی ایک وجہ یقیناً حقیقت پسندی بھی رہی ہوگی لیکن اس کی دوسری اور زیادہ بڑی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ اس خاکسار اور جناب منٹو کا بھرپور ادبی موازنہ ہو سکتا ہے لیکن ہم نے اس حوالے سے ایک پیچیدہ اور طویل بحث سے طبعاً اجتناب برتنے کی ہی کوشش کی ہے دوسری طرف ان معاملات کے بارے میں خوف فساد خلق بھی ہمارے پیش نظر رہتا ہے بخدا ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے کوئی ادبی مسئلہ کھڑا ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب ہما شما اپنے تئیں اپنے کسی ادبی مقام کی دھونس جماتے ہوئے ہمارے بالمقابل کھڑا ہو جائے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ عاجزی اور رواداری کا غلط مطلب نکال لیا جاتا ہے۔ کم از کم ہمارے ساتھ تو اکثر یہی ہوتا ہے۔

چنانچہ ان غیر یقینی حالات کے پیش نظر کچھ عرصہ پہلے ہم نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ سے اپنے ادبی مقام و مرتبے کے تعین اور تحفظ کے لیے ہم خود سے ہی تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو بتدریج دور کیا جائے گا۔ اس حوالے سے جب ہم نے بغور جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ سب سے پہلی رکاوٹ ہمارے اپنے قریبی دوست ہیں۔ ہمارے حلقہ احباب اور قریبی دوستوں کے بارے میں ہمیں اعتراف کرنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمیں ایسے دوست میسر آئے ہیں جن کے بارے میں ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حکمت و دانائی اور ذہانت و فتانت قسم کی کوئی چیز انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔

دانشمندی اور فہم و فراست وغیرہ ان کے نزدیک اضافی ہیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے یہ کم بخت دوست ہمارے بارے میں بھی یہی کچھ کہتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عقل و دانش سے ان کا کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے اور ان کا قول و فعل کسی گہری سوچ بچار وغیرہ سے عاری ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ہمارا تعلق واضح کرتے ہوئے یہ شعر بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ کبوتر با کبوتر باز با باز۔ اب آپ بتائیے کہ ایسے فضول دوستوں سے بھلا کیا بات کی جائے۔

لیکن قریبی تعلق ہونے کی بنا پر مختلف ادبی معاملات میں ان سے مشورہ وغیرہ کرنا پڑتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی بھی ہم اپنا کوئی ادبی شاہکار ان کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں ان کی کوئی سنجیدہ رائے وغیرہ طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ سب ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب اصولی طور پر تو ان کی ایسی فضول حرکت پر کم از کم ان سے قطع تعلق بنتا ہے لیکن ہماری طبعی مروت اور تحمل ہمیشہ آڑے آتا ہے اور ہم کسی ایسے اقدام سے گریز کرتے آئے ہیں۔

بلکہ ایک عرصہ ہوا ہم نے ان کے اس احمقانہ طرز عمل اور بھونڈے مذاق کا برا منانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ہمیں اس حقیقت سے ذرا تسلی اور تسکین بھی ملتی ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی بڑا ادیب آیا ہو جس کا پہلے پہل یوں مذاق نہ اڑایا گیا ہو۔ چنانچہ ان کے اس طرح کی ہنسی مذاق کو ہم اپنے تئیں اپنے بڑے پن کے ثبوت اور سند کے طور پر لیتے ہیں۔ لیکن اصل مصیبت یہ ہے کہ ان کم بختوں کو یوں ہنستا دیکھ کر ہماری اپنی بھی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ اس بات کی البتہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی۔

پھر ایک دوسری بڑی رکاوٹ ہمارے دور نزدیک کے رشتہ داروں کی طرف سے سامنے آتی ہے۔ ان رشتہ داروں کو جب ہم اپنی کوئی عمدہ تحریر، کوئی افسانہ وغیرہ بھیجتے ہیں تو اگرچہ یہ مذاق تو نہیں اڑاتے بلکہ کبھی کبھار تعریف بھی کرتے ہیں لیکن اڑچن یہ ہے کہ جواب میں وہ بھی اپنی ”باکمال“ تحریریں بھیجنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا تناسب یہ رہتا ہے کہ ہماری ایک تحریر کے جواب میں کوئی پانچ سات موصول ہوتی ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر ہم لکھ سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں۔

اچھا بھئی! بجا! لیکن پھر ساتھ میں اصرار یہ ہوتا ہے کہ ان کے ”شاہپارے“ کی تعریف میں کہا جائے کہ بس قلم توڑ کے رکھ دیا ہے۔ جبکہ فی الحقیقت اسے پڑھ کر ان کا منہ وغیرہ توڑنے کو جی کرتا ہے۔ اگلے دن کی سنیے! ہمارے ایک عزیز کے برخوردار نے ہمیں پانچ سات غزلیں بھیجیں۔ ان میں سے ایک غزل جناب غالب کی زمین میں تھی۔ برخوردار نے ہمیں لکھا کہ غالب ؔ سے موازنہ کر کے اپنی رائے سے مستفید فرمائیں۔ ہم نے عرض کیا، ”بس! انیس بیس کا فرق ہے ”۔ پھر اس پر دیر تک بحث ہوتی رہی کہ غالب ؔ بیس ہیں یا برخوردار! اب یہ حالات درپیش ہوں تو فرمائیے کہ ہم کیا کریں۔ ایسے عزیز رشتہ داروں سے اپنے لیے کسی بڑے ادبی مقام کی توثیق و تائید کیونکر حاصل کی جائے جو خود اپنے لیے اس سے کہیں بڑے مقام و مرتبے کے لیے طلبگار ہی نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو حقدار بھی سمجھتے ہیں۔

پھر ہم ذرا زیادہ غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ہمیں کوئی بڑا ادبی مقام دلانے میں جو اصلی اور سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ اتفاق سے ہم خود ہی ہیں۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو تو ہم بتا سکتے ہیں کہ ہم کیا ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نہیں سمجھا سکتے کیونکہ ہم خود بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہم کیا ہیں۔ اس ضمن میں اپنے آپ کو قائل کرنا مشکل تر ہے۔ دوستوں عزیزوں اور احباب کی محفلوں میں پیچیدہ علمی و ادبی مباحثوں میں ہم اپنی دھاک بٹھانے کی کماحقہ کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن پھر اس کے بعد جب کبھی تنہائی میسر آتی ہے اور ذرا اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے تو ہمارے دعوؤں کا پول کھل جاتا ہے اور… اور ان دعوؤں کے لیے کسی طور بھی اندرونی تائید میسر نہیں آتی۔ پھر کسی پر کوئی گلہ نہیں رہتا اور سمجھ آ جاتی ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ تو ہم خود ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا :

ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments