صدارتی ریفرنس مسترد، آگے کیا ہو گا؟


سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کا جسٹس فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ اس حبس زدہ گھمس کے ماحول میں نسیم باد بہاری کی مانند ہے۔ اس یرغمالی عہد بے ننگ و نام میں جہاں ہر طرف ایک ڈاکٹرائن نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں وہاں ایسے فیصلے کا آ جانا ہی کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ یہ ریفرنس کسی بے ضابطگی کی بنیاد پر تھا ہی نہیں بلکہ یہ ریفرنس صرف آئین کی پاسداری کرنے کی سزا کے طور پر تھا۔ یہ ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس کے اس فیصلے کا نتیجہ تھا جن میں وہ بے نقاب ہوئے تھے جن کا نام لکھنا ممنوع ہے۔ اسی وجہ سے اس فیصلہ کو کچھ حلقے انقلاب کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب لوگ شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

صدارتی ریفرنس اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے مگر شور و غل ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس فیصلے کو جسٹس صاحب کے وکلا بھی اپنی کامگاری قرار دے رہے ہیں اور حکومتی وکیل فروغ نسیم بھی اسے اپنی فتح سے ہمکنار کر رہے ہیں۔ ریفرنس خارج ہونے پر تو سب خوش ہیں مگر ایف بی آر کو بھیجنے پر کچھ حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فیصلے کو پانامہ جے آئی ٹی سے جوڑ رہے ہیں۔ حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اس کیس کا پانامہ کیس سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ابتدائی فیصلہ تو آ گیا اب اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے کے قانونی پہلو بھی ہیں اور کچھ سیاسی اثرات بھی ہیں۔

جسٹس صاحب نے حکومتی بدنیتی کی بنیاد پر ریفرنس خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔ ریفرنس تو خارج ہو گیا مگر وجوہات کے لئے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں وجوہات جو بھی سامنے آئیں مگر جسٹس فائز سرخرو ہو چکے ہیں۔ معاملہ ایف بی آر ( ایف بی آر ) میں بھیجنے پر شکوک و شبہات کا اظہار کر کے اسے ایک نئے ریفرنس کی بنیاد بتایا جا رہا ہے۔ ریفرنس کا کالعدم ہونا ہی حکومتی بدنیتی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر سمیت کوئی کچھ بھی کر لے لیکن ان بینک ٹرانزیکشنز کو غلط ثابت نہیں کر سکتا جو جسٹس صاحب کی اہلیہ نے دس رکنی بینچ کے سامنے پیش کی ہیں۔ جب رقم گئی ہی بینک چینل کے ذریعے ہے تو کوئی بھی اس کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ جسٹس صاحب کی اہلیہ گوشوارے جمع کرواتی رہی ہیں۔ اگر گوشوارے بھرنے میں کوئی غلطی ہوئی بھی تو وہ صرف معمولی جرمانہ ہو گا۔

اگر ہم عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کیس دیکھیں تو انہوں نے نہ تو بینک ٹرانزیکشنز دکھائی اور نہ ہی مختلف براعظموں میں پھیلی اپنی جائیدادیں کبھی ظاہر کی تھی۔ اس سب کے باوجود بھی وہ صرف معمولی جرمانہ ادا کر کے بچ نکلیں، جبکہ یہاں تو جرمانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ فروغ نسیم کہتے ہیں کہ انھیں خوشی ہوگی اگر جسٹس فائز کی اہلیہ اگر منی ٹریل دکھا دیں۔ جائیدادوں کا جسٹس صاحب کے ساتھ تعلق ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد فروغ نسیم کی دماغی حالت وہی ہے جو چالاک لومڑی کی انگور توڑنے میں ناکامی کے بعد ہوتی ہے۔

فرشتے کہاں سے لاؤں کا عذر پیش کر کے عمران خان نے حیا باختہ فیصلوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اگر اسے مدنظر رکھیں تو گمان ہے کہ یہ حکومت اور اس کے عالی دماغ سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ تفصیلی فیصلہ جب آئے گا تو حقائق واضح ہوں گے کہ کن بنیادوں پر یہ ریفرنس مسترد ہوا ہے مگر جو چیزیں نمایاں ہوں گی ان میں ایسٹ ریکوری یونٹ اور شہزاد اکبر کا کردار ضرور زیر بحث آئے گا۔ شاید اس ادارے کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر بننے والے ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام میں ضروری عوامل کا خیال نہیں کیا گیا۔ جلد بازی میں کابینہ کی منظوری کے بغیر بنائے گئے اس ادارے سے وزیراعظم کا روئے سخن صرف مخالفوں کی کردار کشی ہی رہا ہے۔ اسی ادارے کو جسٹس صاحب کے اہلخانہ کی جاسوسی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گمان ہے کہ تفصیلی فیصلے کے بعد شہزاد اکبر کے لئے مشکلات بڑھیں گی۔

خدشات ایف بی آر سے نہیں بلکہ ان سے ہیں جو رات کی تاریکی میں آر ٹی ایس بند کر کے نتائج بدلتے ہی تھے مگر اب دن کے اجالے میں بھی چونسٹھ ووٹوں کو چھتیس ووٹوں سے ہروا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں۔ ایسے ہی ریمارکس پر جسٹس شوکت صدیقی بھی خمیازہ بھگت چکے ہیں۔

یہ ناقابل تردید منی ٹریل جج صاحب پہلے دن بھی دکھا سکتے تھے مگر انہوں نے یرغمالی نظام مسلط کرنے والے بدنیتوں کی بدنیتی بھی اہل وطن کو دکھانا تھی۔ ’سقوط جمہوریت‘ کے حقیقی پاسبانوں کو بے نقاب کرنا تھا اسی لئے معاملہ یہاں تک لے کر آئے ورنہ یہی دستاویزات جو سماعت ختم ہونے سے ایک دن پہلے جمع کروائی گئی تھیں وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی جمع کروائی جا سکتی تھیں۔ یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کا تھا ہی نہیں۔ میری نظر میں یہ ریفرنس اب ختم ہو چکا ہے، اب جوڈیشل کونسل ہو یا ایف بی آر کی چیکنگ۔ دس ججز کا مسترد شدہ ریفرنس اب دوبارہ نہیں کھلے گا۔ جسٹس صاحب سرخرو ہو چکے ہیں۔

اس فیصلہ سے کوئی انقلاب تو نہیں آئے گا مگر یہ یقین ضرور مضبوط ہوا ہے کہ حق پر چلنے والوں کا ساتھ اللہ پاک کی ذات دیتی ہے اور سازشیں کرنے والے چاہے کتنے ہی با اختیار اور طاقتور کیوں نہ ہوں وہ بے نقاب ضرور ہوتے ہیں اور آخری جیت صرف سچ کی ہی ہوتی ہے۔ باطل ہمیشہ سے مٹتا آیا ہے اور مٹتا رہے گا۔ حکومت جسٹس صاحب کو پھنسانے چلی تھی مگر خود ہی گرداب میں پھنس چکی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ سرخرو ہو چکے۔ تفصیلی فیصلہ صرف اور صرف حکومت کے لئے ہی سبکی کا باعث بنے گا۔

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments