سادگی کا کلچر کا اختیار کرنا ہوگا


ہماری ریاستی، حکمرانی سمیت تمام طبقات کے نظام میں ایک بنیادی مسئلہ سادگی کے کلچر سے دوری بھی ہے۔ ہم نے بطور معاشرہ خود بھی اپنی زندگیوں میں اپنی مشکلات پیدا کی ہیں او را س کی وجہ ایک ایسے کلچر کو تقویت دینا ہے جو ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

ایک طرف ہمارا ماتم معاشی بدحالی کا ہے تو دوسری طرف ہم بطور معاشرہ اپنے معاملات میں بڑی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی معاشی بحران کے تناظر میں میں ہم غیر معمولی اقدامات کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم سادگی سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اس کی سادہ سی تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم ایسے طور طریقوں سے گریز کریں جو بے جا نمود نمائش کے زمرے میں آتے ہیں یا ہم اپنے موجود وسائل سے ہٹ کر ایسا انداز اختیار کرتے ہیں جو ہمارے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔

ہمارا حکمرانی یا ریاست کا نظام ہو یا خاندان سمیت مختلف طبقات سے جڑے نظام میں ہم بڑی شدت سے نمود ونمائش کا کلچر دیکھ رہے ہیں یا اسے اپنی ضرورت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایک مسئلہ لوگوں کے سامنے اپنی نمود ونمائش کا بھی ہے تاکہ ہم لوگوں پر اپنا سماجی معیار دکھا کر خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکیں۔ اس رویہ نے عمومی طور پر معاشرے کے اندر ایک ایسی طبقاتی دوڑ بھی لگادی ہے کہ یا تو یہ عمل ان لوگوں میں جن کے پاس کچھ نہیں ان میں مایوسی یا غصہ پیدا کرتاہے یا وہ ان مادی چیزوں کے حصول کے لیے خود بھی ناجائز ذرائع کو اختیار کرکے اسی نمود نمائش کی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عمومی طور پر معاشر ے کے بالادست طبقات یا حکمرانی سے جڑے افراد اپنے نظام میں سادگی کا کلچر اختیار کریں تو اس کا بڑا اثر معاشرے کے مجموعی مزاج پر پڑتا ہے۔

ایک طرف رونا اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سنگین بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف ریاستی او رحکومتی سطح پر وسائل کا بے دریغ استعمال اور خاص طور پر حکمرانی کے نظام میں جو شاہانہ انداز ہے وہ ہمارے داخلی تضاد کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلی، گورنر، وزرا، ججز او راسٹیبلیشمنٹ سے جڑے افراد کے دفاتر او رگھروں کے سرکاری اخراجات کی تفصیل ہی کو دیکھ لیں تو ہمیں سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا ا داخلی تضاد کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سالانہ ایوان وزیر اعظم کے اخراجات میں سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں کمی کو عملاً یقینی بنا کر اچھی مثال قائم کی، لیکن دوسری طرف ایوا ن صدر، ایوان وزرائے اعلی اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات میں ہمیں کوئی بڑی تبدیلی کا عمل دیکھنے کو نہیں مل سکا اور ماشا اللہ ان کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات ہی دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ہمارے سماجی معاملات کا حال بھی دیکھیں تو یہاں بھی کافی تضادات ہیں۔ ہمارے کھانے، پہنے، تفریح اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہم بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ہمارے کھانوں کی مجالس میں جو شاہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ خود قابل مذمت ہے۔ یہاں تک کہ علمائے کرام کی محفلوں میں بھی سادگی کے کلچر کا بدترین مذاق آڑایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی جو کچھ دولت کا ضیاع ہورہا ہے وہ خود بھی قابل گرفت ہے۔ اگر ہمارے پاس وسائل نہیں ہوتے تو ہم ادھار لے کر ایسا انداز اختیار کرتے ہیں تاکہ ہماری معاشرے میں عزت کا پہلو برقرار رہ سکے۔

یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشرے میں لوگوں کی تربیت سے جڑے تمام نظام جس میں ہمارا تعلیمی، خاندانی، سماجی، اصلاحی اور مذہبی نظام ہے سب اپنی اہمیت کھورہے ہیں۔ ہم معاشرے میں تربیت کا اوپر سے لے کر نیچے تک ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو لوگوں میں ایک سادہ زندگی یا سادگی کے کلچر کو تقویت دے سکے۔ اگرچہ تربیت سے جڑے افراد یا ادارے اپنی تقریروں، تحریروں، بولنے کے عمل میں سادگی کی بڑی تلقین کرتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کی اپنی زندگی میں بھی تضادات کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے جو بڑی سماجی تحریک کو پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے میڈیا میں بھی جو کچھ ڈراموں، فلموں یا کمرشل اشتہارات کے نام پر دکھایا جا رہا ہے وہ بھی معاشرے میں موجود طبقات میں سادگی کے کلچر کی نفی کرتا ہے۔ اب وہ زمانہ گیا جب ہم اپنے ڈراموں اور فلموں کی بنیاد کو اصلاح کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اب جو کمرشلزم کی ڈور ہے اس میں نمود نمائش یا گلیمرائزیشن کے کلچر کو زیادہ طاقت ملی ہے۔ ہمارے ہاں بڑے اور اچھے لوگوں کا معیار بھی ا س بیماری کا شکار ہوگیا ہے کہ کون کتنا رکھتا ہے اور کتنا لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

جو لوگ اب معاشرے میں سادگی کے کلچر کی بات کرتے ہیں تو ان کو پرانے زمانے کے فرسودہ خیالات کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لوگ اپنی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلائیں تو اس کی بھی سماجی عمل میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اب معاشرے کا چل چلن بدل گیا ہے او راگر ہم نے آج کے دور کے مطابق خود کو نہ ڈھالا تو ہم معاشرے میں پیچھے رہ جائیں گے او رہمیں بڑے طبقات میں زیادہ عزت نہیں مل سکے گی۔ یعنی عزت کا معیار نمود نمائش یا بے جا اخراجات یا پیسے کے ضیاع سے دیکھا جاتا ہے، جو خود بڑا المیہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہم معاشرے میں نمود نمائش کے مقابلے میں سادگی کے کلچر کو طاقت دی جاسکے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ کسی ایک فریق پر ڈالا جاسکتا ہے۔ یہ پورا نظام اپنی تربیت کے نظام میں ایک بڑی اصلاح چاہتا ہے او ریہ کام ڈنڈے کے زور کے مقابلے میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ بڑی تربیت گاہ تو خاندان او رتعلیم کے نظام سے ہی جڑا ہوا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے او رلگتا ہے کہ افراد کی عملی تربیت اور معاشرے میں اس کی نمایاں جھلک ہماری ترجیحات کا ایجنڈا نہیں۔ سیاسی جماعتیں، قیادت، میڈیا، اہل دانش یا رائے عامہ کو عملاً بنانے والے افراد یا ادارے سادگی کے کلچر کو بنیاد بنا کر کچھ عملی طور پر کرنے کے لیے تیار نہیں۔

بنیادی طور پر ایک بڑی سماجی تبدیلی میں پانچ عوامل بہت زیاداہم ہوتے ہیں۔ اول ریاستی و حکومتی نظام اور اس کا طرز عمل، دوئم معاشرے کی تربیت سے جڑے نظام اور افراد، سوئم ہمارا تعلیمی نظام و نصاب، فکری و علمی نظام جو اصلاح کی بنیاد پر کھڑا ہو، چہارم معاشرے کے طاقت ور بالادست اور طاقت طبقوں کا سماجی طرز عمل جو اوپر سے نیچے کی سطح پر جاتا ہے ، پنجم میڈیا، والدین، استاد اور علمائے کرام کا کردار۔ کیونکہ اگر واقعی ہم معاشرے میں سادگی کے کلچر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں ایک بڑی سماجی تحریک کی ضرورت ہے اور اس تحریک میں تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ نہ صرف ڈالنا ہوگا بلکہ اپنے باہمی تضادات کو بھی ختم کرکے خود کو ایک بڑے کردار کے لیے پیش کرنا ہوگا۔

اسی طرح حکومت کی سطح پر اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے ہمیں ترقیاتی اخراجات کو بڑھانا ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رسمی و غیر رسمی تعلیمی و مذہبی اداروں سے سماجی تحریکیں جنم نہیں لے رہیں اور نہ ہی ہم ایسا سماج تیار کر رہے ہیں جو ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس تحریک میں جہاں انفرادی سطح پر لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں ہمیں اجتماعیت کے پہلوؤں کو مضبوط بناکر بڑے ناموں کو خود کو قیادت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ریاست او رحکومت کے نظام پر تو خوب تنقید کرتے ہیں لیکن انفرادی سطح پر خود کو بھی بدلنے کے لیے تیار نہیں اور وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو اصلاحی تحریکوں کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ سادگی کو بنیاد بنا کر آپ معاشرے سے کٹ جائیں یا جنگل میں نکل جائیں۔ آ پ معمول کی زندگی گزرایں اور اس میں ایسے طور طریقے اختیار کریں جو معاشرے میں اصلاحی عمل کو آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوں۔ اس کام میں ہماری نوجوان نسل کو آگے بڑھنا چاہیے۔ نوجوان نسل خود کو ایک سماجی سفیر کے طور پر پیش کرے اور اس نکتہ پر زیادہ زور دے۔ نوجوان سوشل میڈیا کی مدد سے اس سادگی کی تحریک کو ایک بڑی تحریک میں تبدیل کرنے کی پہل کر لیں تو یقینی طور پر بہت کچھ بدل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments