غلاف کعبہ کا حصول گھر بیٹھے کیسے ممکن ہو سکا


مکہ معظمہ میں قیام کے دوران مجھے ہر لمحہ یہ خیال رہتاکہ میں کس قدر خوش نصیب ہوں جو اس شہر مقدس میں، مسجد حرام کے عین سامنے واقع ہوٹل میں رہائش پذیر ہوں۔ اس روئے زمین پر واقع کوئی شہر، کوئی مقام، کوئی علاقہ مکہ معظمہ سے بڑھ کر حرمت اور عظمت والا نہیں۔ یہ شہر اللہ رب العزت اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ البلد میں اللہ پاک نے اس شہر مبارک کے تقدس کے اظہار کے لئے اس شہر کی قسم اٹھائی ہے۔

حضور اقدس نے اس شہر کو مخاطب کر کے فرمایا : اللہ کی قسم! تو اللہ تعالی کی زمین میں بہترین جگہ ہے اور اللہ کو محبوب ترین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔ اس کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مقام مقدس کو اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر اپنی عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر (کعبہ) بنانے کے لئے منتخب فرمایا۔ اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے لئے بھی اس شہر مبارک کو پسند فرمایا

عمرہ کا طواف حرم کی بالائی منزل پر کرنے کی وجہ سے میں بیت اللہ کو چھو نہیں سکی تھی۔ اس کے بعد مگر جتنے دن مکہ معظمہ میں گزرے، بیشتر وقت مطاف (صحن کعبہ ) میں، بیت اللہ شریف کے انتہائی قریب گزرا۔ بار بار طواف کرنا نصیب ہوا۔ دوران طواف کئی کئی مرتبہ بیت اللہ کو چھونے، اسے بوسہ دینے، اس سے لپٹ کر دعا مانگنے، اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ملتزم (باب کعبہ اور حجرہ اسود کی درمیانی جگہ) میں ٹھہرنے کا موقع ملا۔

باب کعبہ کے عین نیچے کھڑے ہونے کے لئے خلق خدا کا ہجوم منتظر رہتا ہے۔ نہایت خوش نصیبی سے وہاں تک رسائی ملتی ہے۔ ایک مرتبہ تہجد کے وقت میں وہاں جا پہنچی۔ حسب معمول لوگوں کا بے کراں رش تھا۔ ایک ادھیڑ عمر ترک آدمی باب کعبہ کے قریب دیوار کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ ہاتھ میں تھامے ایک کتابچے سے دعائیں پڑھ رہا تھا۔ زائرین اسے وہاں سے ہٹنے کو کہتے مگر وہ اپنی جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کچھ پاکستانی خواتین کافی دیر سے منتظر کھڑی تھیں۔

بار بار پنجابی میں اس سے مخاطب ہوتیں۔ چاچا جی۔ ہن سانوں وی ایس جگہ تے آن دیو (چاچا جی۔ اب ہمیں بھی اس جگہ پر آنے دیجیے ) ۔ ترک آدمی مگراس دھکم پیل میں اپنا احرام سنبھالتا، دعائیں پڑھنے میں مصروف تھا۔ کافی انتظار کے بعد میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے اس جگہ پر آنے دے۔ اس کی مہربانی کہ وہ وہاں سے ہٹ گیا۔ میں اس جگہ پر کھڑی ہو گئی اور پھر آدھ پون گھنٹہ وہیں موجود رہی۔ کبھی غلاف کعبہ کو چھوتی۔ کبھی غلاف کے پیچھے ہاتھ بڑھا کر کعبہ کی دیواروں کو۔

بلا شبہ غلاف کعبہ کو چھونا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ جسے بھی بیت اللہ تک رسائی ملتی ہے وہ نہایت محبت اور عقیدت سے غلاف کو چھوتا ہے۔ اسے بوسہ دیتا ہے۔ اس سے لپٹتا ہے۔ ایک قصہ جو آج تک میں کسی کو نہیں بتا سکی۔ برسوں پہلے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے گھر میں نے غلاف کعبہ کا ایک بہت بڑا ٹکرا دیکھا تھا۔ اس وقت مجھے انتہائی حسرت ہوئی تھی کہ کاش میرے پاس بھی غلاف کعبہ ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آرزو میں اضافہ ہوتا گیا۔

یہ خواہش اس قدر بڑھی کہ دو تین بار میں نے سوچا۔ یہ صاحب انتہائی با اختیار ہیں اور بے حد با مروت بھی۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی سفارشات اور گزارشات سنتے ہیں۔ میں بھی ان سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے غلاف کعبہ کا ایک ٹکرا منگوا دیجیے۔ یہ کام ان کے لئے کیا مشکل ہے۔ معاملہ لیکن یہ ہے کہ کسی انسان سے کچھ مانگتے مجھے نہایت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ مجھے صرف اپنا محتاج رکھے۔ لہذا میں اس خیال پر عمل درآمد نہ کر سکی۔

یہ خواہش مگر دل میں ہمیشہ موجود رہی۔ سوچا کرتی تھی کہ کہیں سے ایک آدھ انچ غلاف کعبہ نصیب ہو جائے تو اسے ہر آن اپنے ساتھ اپنے پرس میں رکھا کروں گی۔ اور پھر اللہ نے اپنے ایک بندے کے ذریعے اس کا انتظام کر دیا۔ ایک آدھ انچ نہیں، کئی فٹ لمبائی اور چوڑائی کا حامل غلاف کعبہ گھر بیٹھے بٹھائے مجھ تک پہنچ گیا۔ موٹے سنہرے تاروں سے جس پر یا حی یا قیوم لکھا ہوا ہے۔ میں جب بھی اسے دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اللہ کیسے اپنے گناہ گار بندوں کی انہونی خواہشات بھی پوری کر دیتا ہے۔

اس رات میں کافی دیر تلک کعبہ کے دروازے کو تھامے کھڑی رہی۔ باب کعبہ کے اوپر علیحدہ سے ایک منقش پردہ موجود ہوتا ہے۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے اس کو چھونا عمومی طور پر ایک مشکل کام ہے۔ معلوم نہیں کیسے مگر اس مرتبہ میں بار بار ہاتھ بڑھا کر باب کعبہ کے اوپر لگے منقش پردے کو چھوتی رہی۔ اسے چھوتے وقت مجھے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ملنے والی وہ بوڑھی خاتون یاد آ گئی۔ جس نے اپنا رومال میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا تمہارے ہاتھ لمبے ہیں، میرے رومال کو روضہ مبارک کی جالیوں کے ساتھ لگا دو۔

اللہ جانتا ہے کہ ہر مرتبہ جب میں باب کعبہ کا منقش پردہ چھوتی مجھے خیال آتا کہ میرے رب کا فضل ہے، جس نے مجھے یہاں تک رسائی دے رکھی ہے۔ باب کعبہ کو دیکھ کر یہ خیال بھی آتا کہ یہ میرے رب کے گھر کا دروازہ ہے۔ محاورتا نہیں واقعتاً اس کا در ہے۔ اس کے گھر کی چوکھٹ ہے۔ اس روئے زمین پر بھلا اس سے زیادہ مقبول جگہ کون سی ہو گی۔ یہ بھی سوچتی کہ اس سے بڑھ کر کسی کی رسائی بھلا کہاں تک ہو سکتی ہے۔

اگلے دن میں اپنی ماں کو بھی باب کعبہ تک لے لائی۔ انہیں سہارا دے کر اوپر اٹھایا۔ میری ماں کو نا صرف کعبہ کا دروازہ چھونے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ انہوں نے حجرہ اسود کو بوسہ بھی دیا۔ جو لوگ حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ حجرہ اسود کو بوسہ دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میری خوش بختی کہ اس مرتبہ مجھے دو بار حجرہ اسود کو بوسہ دینے کی سعادت ملی۔ تیسری مرتبہ میں اپنی امی کا ہاتھ تھامے اس کے قریب چلی آئی۔ بے حد مشکل سے سہی، مگر انہیں بھی حجرہ اسود چومنے کی سعادت مل گئی۔ ایک ہجوم بے کراں کی موجودگی میں، اس ضعیف العمری میں ان کا حجرہ اسود کو چومنا کسی معجزے سے کم نہیں۔

صحن حرم میں دور بیٹھے میں بیت اللہ کو دیکھا کرتی۔ خیال آتا کہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان اس گھر کی طرف رخ کر کے نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مجھے اپنی خوش قسمتی کا احساس ہوتا جسے اللہ نے یہاں تک آنے اور بیت اللہ کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائی ہے۔ ایک آدھ بار تو میں کعبہ کو تکتے تکتے وہاں بچھے قالین پر سو گئی۔ سچ یہ ہے کہ کعبہ کا منظر اور رونق الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ یہ رونق کبھی ماند نہیں پڑتی۔ دن رات خلق خدا وہاں موجود رہتی ہے۔

ایک لمحے کے لئے بھی طواف نہیں رکتا۔ عبادات جاری رہتی ہیں۔ اللہ کے گھر کی راتیں بھی انتہائی روشن اور جاگتی ہوئی ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ایسی راتیں دیکھنا بار بار نصیب فرمائے۔ آمین۔ موجودہ وبائی صورتحال کی وجہ سے، ٹیلی ویژن سکرین پر خلق خدا سے خالی صحن کعبہ اور حرم کے مناظر دیکھ کر دل انتہائی دکھی ہو جاتا ہے۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک جلد از جلد ہمیں اس صورتحال سے نجات بخشے۔ پھر خیال آتا ہے کہ اگرچہ آج کل اس مقام مقدس میں انسانوں کا ہجوم دکھائی نہیں دیتا، تاہم اللہ کا یہ گھر دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی آرزو کا مرکز ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان، بیت اللہ کو اپنے دل میں بسائے اس کی طرف رخ کر کے نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف کو دیکھنے سے دل کبھی نہیں بھرتا۔ جتنا دیکھو مزید دیکھنے کی خواہش دل میں موجود رہتی ہے۔ اسے دیکھتے مجھے خیال آتا کہ اس بیت اللہ کے عین اوپر بیت المعمور موجود ہے۔ آسمان والوں کا کعبہ۔ ستر ہزار فرشتے روزانہ جس کا طواف کرتے ہیں۔ اللہ پاک مجھے معاف فرمائے۔ روز مرہ زندگی میں نماز کی باقاعدگی مجھے نصیب نہیں۔ مگر جب بھی نماز پڑھتی ہوں۔ لمبی لمبی دعائیں مانگنے کی نوبت نہیں آتی۔ اپنے گناہوں کی معافی، خیر و عافیت کی زندگی اور خیر و عافیت کی موت۔

عام طور پر یہ دعائیں مانگنے کے علاوہ مجھے کوئی دعا یاد نہیں آتی۔ کچھ قرآنی آیات اور انبیائے کرام کی دعائیں ہیں، جو برسوں سے میں نے بطور دعا اختیار کر رکھی ہیں۔ یہ میرے تمام معاملات اور ضروریات کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے بھی طویل دعاؤں کی نوبت نہیں آئی۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ مناجات اور گزارشات کے بعد دعا کرتی کہ یا اللہ! تو دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہے۔ میرے دہرانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

دنیا اور آخرت کی میری تمام حاجات کے لئے تو کافی ہو جا۔ دعا مانگتے یوں بھی مجھے آنکھیں موندھنا پڑتی ہیں۔ بیت اللہ سامنے ہو تو آنکھیں بند کرنے کو دل نہیں مانتا۔ نماز سے سلام پھیرتے ہی مجھے کعبہ کو دیکھنے کی جلدی ہوتی تھی۔ ایسے میں بھلا آنکھیں موندھ کر دعا کیسے مانگتی۔ بس ہاتھ اٹھاتی۔ جو جو قرآنی آیات ذہن میں آتیں۔ کھلی آنکھوں سے بیت اللہ کو تکتے تکتے دہرا دیتی۔ میری امی البتہ آنکھیں بند کیے طویل دعا مانگا کرتیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments