جاہل لاہوریے!


اس سے پہلے ہمیں یہی پڑھایا بھی گیا اور ہفتوں پر محیط دھرنوں میں بتایا بھی گیا کہ اگر دریا کے کنارے کوئی کتا بھوکا مر جائے تو ذمہ دار حاکم وقت ہوتا ہے لیکن اب جا کر معلوم ہوا کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے ذمہ دار حاکم وقت نہیں بلکہ وہ جاہل کتا ہے جسے سامنے بہتا دریا بھی نظر نہ آیا اور ایسے جاہل کتے کا مر جانا ہی بہتر ہے جس کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا دریا موجود ہو لیکن وہ دو چار قدم کی تکلیف بھی گوارا نہ کر سکے۔

پرانے پاکستان میں ہمیں یہ بھی سنایا جاتا تھا کہ کسی ملک میں اگر کشتی ڈوب جائے تو اس ملک کا حاکم ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفاء دے دیتا ہے لیکن نئے پاکستان میں پتا چلا کہ حاکم وقت کی بجائے ذمہ دار وہ ملاح ہے جو کشتی چلا رہا تھا۔ کرپٹ لوگوں کے دور حکومت میں جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہوتا تھا اس کا قاتل وزیراعظم ہوتا تھا لیکن نئے پاکستان میں قاتل کے نامعلوم ہونے کی تمام تر ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔

پرانے پاکستان میں وزیراعظم کا پروٹوکول لینا حرام تھا لیکن اب اسی فعل حرام پر سیکیورٹی کا لیبل لگا کر اسے حلال کر دیا گیا ہے۔ پرانے پاکستان میں لاہور میں ہوئی ہر بات کی ذمہ داری وزیراعلیٰ اور حکومت کی ہوتی تھی لیکن نئے پاکستان میں کرونا جیسی وبا بھی کنٹرول کرنا حکومت کی نہیں بلکہ عوام کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو ”لاہوریے جاہل ہیں“ ۔ جب سے ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہوریوں کو جاہل کہا ہے تب سے میں لاہور میں موجود جہالت کی نشانیاں تلاش کر رہا ہوں۔ یہ نشانیاں بہت زیادہ ہیں لیکن چند موٹی موٹی نشانیاں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں تا کہ آپ بھی اپنا قبلہ درست کر لیں اور آج سے اپنے آنے والی نسلوں کو پڑھانا شروع کر دیں کہ لاہوریے جاہل ہیں۔

لاہوریوں کے شہر کو پنجاب کا دارالحکومت بنا دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ یہیں سے پورے صوبے کو کنٹرول کیا جائے گا، لاہور کو پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز بھی کہا جاتا ہے، اسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے، اسے باغوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کا مطلب یہ ہے یہاں تمدنی شعور اس وقت بیدار ہو چکا تھا جب یہ اصطلاح بھی شاید استعمال نہیں ہوتی تھی، اس کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے، وہ کون سا حاکم ہے جس نے یہاں ڈیرے نہ لگائے ہوں؟ دنیا میں یہ واحد شہر ہے جس کے باسیوں کو اپنوں تو کجا غیروں نے بھی ”زندہ دلان لاہور“ کے اسم سے موسوم کیا۔ یہ سب جہالت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہے؟ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا؛

”لاہور رابجان برابر خریدہ ایم
جاں دار ایم و جنت دیگر خریدہ ایم ”

لاہور کو جنت کہنا جہالت کی نشانی تو اور کیا ہے؟ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی جیسے حاکم نے پنجاب فتح کر کے اپنے سب سے چہیتے اور وفادار غلام ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا، یہ لاہوریوں کی جہالت نہیں تو اور کیا ہے کہ سلطان محمود غزنوی سے اس کا سب سے لاڈلا ہیرا لے اڑے۔ ارے یاد آیا کہ لاہوریوں کے جاہل ہونے کی سب سے بڑی نشانی تو 23 مارچ 1940 میں سامنے آئی جب یہاں قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔ بھلا کیا ضرورت تھی قائداعظم اور شیر بنگال کو کہ اتنی دور سے جلسہ کرنے یہاں آتے اور جاہل لوگوں کو سامنے اکٹھا کر کے ان سے قرار داد پاکستان کی منظوری لیتے؟ پاکستان کی تاریخ ہے کہ جو بھی تحریک لاہور سے چلی وہ کامیاب ہوئی، یہ جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟

لاہور میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن آج تک کبھی مذہبی فسادات نہ ہوئے، یہ جہالت کی نشانی تو اور کیا ہے؟ علامہ اقبال جیسے مفکر اور فلسفی نے ابتدائی طور پر نوکری کرنے، وکالت کرنے اور زندگی گزارنے کے لیے اپنی جنم بھومی سیالکوٹ کی بجائے لاہوری کا انتخاب کیا، یہ لاہوریوں کی جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟ لاہور میں چوبیس گھنٹے پاکستان کے تقریباً ہر شہر کی ٹریفک مل جاتی ہے بلکہ ایسی کوئی بھی مشہور ٹریفک کمپنی نہیں جو لاہور میں اپنی سروسز فراہم نہ کرتی ہو، یہ جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟

لاہور چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے اور ملکی خزانے میں قابل قدر اضافہ کرتا ہے، یہ جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟ لاہور میں روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہیں اور ملک کے ہر کونے سے لوگ یہاں آ کر اپنا چولہا گرم کرتے ہیں بلکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے ڈاکٹر بننے کے لیے اور بعد ازاں پریکٹس کرنے کے لیے اپنے آبائی شہر چکوال کی بجائے لاہور کا ہی انتخاب کیا، یہ جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟ ملکی ائر ویز کے علاوہ قطر ائر ویز، امارات ائر ویز، اتحاد ائر ویز، سعودیہ ائر لائنز، گلف ائر ویز اور تھائی ائر ویز نے لاہور میں اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں۔ اب ان کے مالکان کو تو جاہل کہا نہیں جا سکتا لہذا یہی کہنا بنتا ہے کہ یہ لاہوریوں کی جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟

میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ مرکز سراجیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ نظامیہ، منہاج القرآن، جامعہ نعیمیہ اور جامعہ المنتظر جیسے معروف دینی ادارے لاہور یوں کو ہی کیوں دیے گئے؟ پنجاب یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی، نیشنل کالج آف آرٹس، یونیورسٹی آف ایجوکیشن، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، اسلامیہ کالج، بیکن ہاؤس یونیورسٹی، قرشی یونیورسٹی، لمز، منہاج یونیورسٹی، علامہ اقبال میڈیکل کالج، ایچی سن کالج، دیال سنگھ کالج جیسے ادارے لاہور میں ہی کیوں بنائے گئے؟

بادشاہی، دائی انگہ، موتی، بیگم پورہ، دائی لاڈو، سنہری، وزیر خان، مریم زمانی، شہید گنج، بوکن خان اور ملا جیون جیسی مساجد لاہور میں ہی کیوں بنائی گئیں؟ مردان خان، میاں میر، انارکلی، دائی انگہ، نادرہ بیگم، بی بی پاکدامن، جہانگیر، نورجہان اور قطب الدین ایبک جیسے لوگوں کے مقبرے لاہور میں ہی کیوں بنائے گئے؟ حضرت داتا گنج بخش، حضرت میاں میر، حضرت علامہ اقبال، میراں حسین زنجانی اور لعل حسین وغیرہ جیسے لوگوں نے زندگیاں لاہور ہی میں کیوں گزاریں اور آخرکار ان کے مزار بھی اسی شہر میں کیوں بنے؟

لال حویلی، مغل حویلی، مبارک حویلی، نونہال سنگھ، دینا ناتھ، میاں خان، سلمان سرہندی اور دھیان وغیرہ جیسی مشہور حویلیاں لاہور میں ہی کیوں واقع ہیں؟ قائداعظم، دیال سنگھ اور پنجاب پبلک جیسی لائبریریاں لاہور کا مقدر کیوں بنیں؟ باغ جناح، حضوری باغ، مہابت خان باغ، شالامار باغ، فتح گڑھ باغ اور گلابی باغ جیسے تفریحی مقامات لاہور میں ہی کیوں بنائے گئے؟ مال روڈ، انارکلی بازار، لبرٹی مارکیٹ، اکبری منڈی، نولکھا بازار، اچھرہ بازار، شاہ عالمی بازار اور مون مارکیٹ جیسے بازار لاہور کے علاوہ کسی اور شہر میں کیوں نہ بن پائے؟

اس طرح کے اور بھی کئی سوالات تھے جو میرے ذہن میں کلبلاتے رہتے تھے لیکن اب ان تمام کا خاتمہ ہوا۔ میں ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ان تمام سوالوں کے جواب اس ایک جملے میں دے دیے کہ لاہوریے جاہل ہیں۔ شکریہ ڈاکٹر صاحبہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments