محکمہ صحت پنجاب کے ڈھول کا پول


محکمہ صحت حکومت پنجاب کی جانب سے کرونا سے نمٹنے کے دعوے تو بلند بانگ کیے جاتے ہیں مگر حقیقت بالکل مختلف ہے۔

میرے ایک بھتیجے کو جو 48 برس کا ہے خاصی چیسٹ انفیکشن ہوئی۔ شدید کھانسی اور بلغم۔ مرض کے شروع ہونے کے تیسرے روز ایکس رے لیا گیا۔ مقامی ڈاکٹر علاج کر رہے تھے۔ مرض برقرار آٹھویں روز یعنی گزشتہ کل بھی ایکس رے لیا گیا۔

علی پور میں ظاہر ہے کرونا کے لیے ٹیسٹ نہیں ہوتا چنانچہ احتیاط کی خاطر ملتان لے جانے کا سوچا۔ میں نے نشتر ہسپتال سے ریٹائر ہوئے میڈیسن کے مایہ ناز پروفیسر محمد علی کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر طرح کے بخار کو آج کل کووڈ 19 لینا چاہیے۔ میں نے بتایا کہ بخار تو ایک روز بھی نہیں ہوا۔ بولے ہمیں چونکہ اس نئے وائرس کے بارے میں بہت ہی کم علم ہے اس لیے اسے نشتر ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جائیں وہاں کورونا ٹیسٹ ہو جائے گا۔

مریض کو چونکہ کار میں لے جانا تھا تو 5000 رینٹ اے کار کے ہوئے۔ نشتر ایمرجنسی میں کہا گیا کہ ہمارے پاس ٹیسٹ کٹس بہت ہی کم ہیں چنانچہ آپ انہیں دو روز کے لیے ایڈمٹ کروا دیں تو ہم بعد میں ٹیسٹ کر لیں گے۔ ایک مریض جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ کورونا پازیٹیو ہے یا نیگیٹو تو اسے کورونا وارڈ میں کیسے داخل کروا دیں؟

چنانچہ چغتائی لیب لے جایا گیا 8000 دیے، تو انہوں نے ٹیسٹ کے سیمپل لیا، رپورٹ دو روز بعد ملے گی۔

مریض کو اپنے طور پر پلمونولوجسٹ کو دکھایا گیا۔ 2000 روپے ان کی فیس دی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ مقامی ڈاکٹر مریض کو سٹیرائیڈ دے رہے ہیں۔ اس دوا سے بلڈ شوگر لیول بھی بڑھ جاتا ہے اور بلڈ پریشر بھی۔ موصوف نے شوگر ٹیسٹ کروایا۔ زیادہ ہونے پر 6000 کی ادویہ لکھ دیں جن میں سٹیرائیڈ انجیکشن بھی تھا۔ ساتھ جانے والوں نے عقل کی، ادویہ نہ لیں۔

ڈرائیور سمیت چار افراد نے کھانا بھی کھایا۔ متفرق اخراجات سمیت 20000 روپے خرچ کر کے مریض اور ساتھ جانے والے دو افراد واپس آ گئے۔ مقامی طور پر مہنگا علاج ویسے ہی جاری ہے۔

ہم متوسط لوگ تو کسی نہ کسی طرح اخراجات کر ہی لیتے ہیں لیکن نادار لوگوں کا، جن کی کہ اکثریت ہے، کیا ہوگا؟

دو روز بعد ٹیسٹ رپورٹ آ گئی ڈیٹیکٹڈ۔ جی ہاں کورونا وائرس سے متعلق رپورٹ پازیٹیو، نیگٹیو کے الفاظ میں نہیں ہوتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔

مجھے بھتیجی نے کہا رپورٹ بری آئی ہے آپ اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیں۔ میں نے کہا کہ بند تو مریض کو ہونا چاہیے نہ کہ مجھے۔ 1122 کو فون کرو تاکہ مریض کو ہسپتال پہنچائیں اور حکومت کی ٹیم آ کے گھر کے باقی لوگوں کے سیمپل لے۔

بتایا گیا کہ آپ یہاں نہیں رہتے، یہاں کے حالات سے یکسر آگاہ نہیں رہے۔ کوئی ٹیم نہیں آئے گی، کوئی سیمپل نہیں لیں گے۔ بس پولیس آئے گی اور جا کر مریض کو یکا و تنہا ہسپتال میں ڈال دے گی جہاں نہ ڈاکٹر پوچھیں گے نہ کوئی پرسان حال ہوگا۔

مقامی معالج، جو علاج کر رہے تھے، رپورٹ سن کے بدک گئے اور کہا نہ میں علاج کروں گا، نہ میرا ڈسپنسر انجکشن لگانے آئے گا۔ جب منت کی تو انہوں نے اپنی ڈاکٹر بیٹی سے مشورہ لیا، جو بہاولپور سول ہسپتال میں میڈیکل سپیشلسٹ اور کورونا یونٹ کی سربراہ ہیں، جنہوں نے تمام رپورٹس اور ایکس رے دیکھ کے کہا کہ گھر پہ تنہا کر کے علاج کیا جانا ممکن ہے۔ البتہ سانس بگڑے تو فوری لے آئیں۔

گھر کے بوڑھے جن میں مریض کے والد، دو پھوپھیاں اور چچا یعنی میں شامل ہیں اس سے دور رہے۔ مریض کی چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی ماسک پہنے انتہائی احتیاط کے ساتھ اس کی تیمارداری پر مامور رہے۔

اگلے روز سانس لینے میں دقت ہونے لگی تو مریض کو ہسپتال چلنے کو کہا۔ اس نے صاف انکار کر دیا اور اس کی طبیعت مزید بجھ گئی۔ دوسری شام اسے بتا دیا گیا کہ اس کے بدن میں وائرس دریافت ہوا ہے تو وہ طوعاً و کرہاً ہسپتال جانے پر رضامند ہوا۔

رات کے بارہ بجے مریض اور اس کے دونوں تیمار دار روانہ ہوئے۔ دو گھنٹے بعد بہاولپور پہنچے۔ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر صاحبہ کا جنہوں نے ہدایت کی ہوئی تھی چنانچہ مریض لے لیا گیا اور اسے وارڈ میں رکھا گیا۔

میرے لیے موجب حیرت یہ کہ کورونا کے مریضوں کے ساتھ بھی تیماردار کو نہ صرف رہنے کی اجازت ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ کوئی ساتھ رہے۔ اگلے روز ڈاکٹر صاحبہ نے ہمارے مریض کو پرائیویٹ کمرہ دلا دیا۔ اپنی طرف سے تیماردار کو جو ڈاکٹر صاحبہ کی بڑی بہن ایسی ہیں این 95 ماسک دے دیا اور کمرے میں دو بستر لگوا دیے۔

ڈاکٹر صاحبہ خود وزٹ پہ آتی ہیں۔ علاج تجویز کر جاتی ہیں مگر بعد میں وہی تساہل پسند ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اور نرسیں کہ اگر تیماردار پیچھا نہ کرے تو نہ انجکشن دینے پہنچیں نہ ڈرپ اتارنے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو اس قدر نقاہت ہوتی ہے کہ وہ اٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکتا۔ بیت الخلا تک جانے کے لیے کسی کا سہارا درکار ہوتا ہے۔

ہمارا مریض شکر الحمدللہ روبہ صحت ہے اگرچہ بہت آہستہ آہستہ۔ مسلسل ماسک پہنے رہنے سے تیماردار بہن کے چہرے پر نشان بن گئے ہیں، ماسک کے اندر پسینہ آنے سے دانے نکل آئے ہیں۔ مریض کا چھوٹا بھائی وارڈ سے باہر موجود رہتا ہے کہ کوئی دوا لانی ہو کوئی غذا پہنچانی ہو کیونکہ حکومت تو بس مریض داخل کر لیتی ہے۔

کسی کو نہ بتانے کی مجھے سمجھ بعد میں آئی کہ تمام رشتہ دار مسلسل تیماردار کو فون کر کے مریض کی طبیعت بارے معلوم کرتے رہتے ہیں۔ تیماردار پریشان۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ فون نہ سنے کیونکہ ہمارے ہاں ناراضی رشتہ داروں کی ناک پہ دھری ہوتی ہے۔
میں جو ساڑھے تین ماہ سے گھر تک محدود ہوں، مریض ہونے والے کی مبینہ لاپروائی سے نئے سرے سے کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے سے خائف ہو چکا ہوں۔ دعا کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments