شہری پر تشدد اور نیم برہنہ کر کے ویڈیو بنانے والے پولیس اہلکار گرفتار


شہری پر تشدد

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک شہری پر تشدد اور اسے نیم برہنہ کر کے ویڈیو بنانے کے معاملے میں تین پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ معاملہ چند روز قبل عامر نامی شہری کی ویڈیو سے شروع ہوا تھا جس میں اس نے پولیس اہلکاروں کے بارے میں نازیبا گفتگو کی تھی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تھانہ تہکال کی پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تھا اور پھر اس کی نیم برہنہ ویڈیو سامنے آئی۔

یہ ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر پشاور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور بدھ کو پولیس حکام نے کارروائی کرتے ہوئے پولیس انسپکٹر اور اہلکاروں کو معطل کر کے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور ظہور بابر آفریدی نے تھانہ تہکال کے ایس ایچ او کے علاوہ مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث ایک اے ایس آئی اور دو کانسٹیبلوں کو بھی معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اے ایس آئی اور دونوں کانسٹیبلز کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہم عادی معاشرے کے باسی ہیں، محض تماشائی‘

پشاور یونیورسٹی: پولیس تشدد کے بعد طلبہ کا احتجاج

کیا یہ نیا تفتیشی سکول پولیس تشدد ختم کر پائے گا؟

پولیس کی نیک نامی کے لیے ’دال چاول‘ تیار

عامر مسیح پر ’تھانے، ہسپتال دونوں میں تشدد ہوا‘

وائرل ویڈیو کا معاملہ کیا ہے؟

چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند لڑکے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں ایک اپنا تعارف پشتو زبان میں یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ ’میں تہکال کا عامر ہوں‘۔

تہکال پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر ایک علاقہ ہے جہاں بیشتر آبادی ارباب خاندان کی ہے ۔

اس ویڈیو میں مذکورہ لڑکا پولیس افسران کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پولیس اس کا کیا کر سکتی ہے۔ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے ایس ایچ او کی زیر نگرانی کارروائی کرتے ہوئے عامر کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد عامر کی ایک تصویر اور مختصر ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کے چہرے پر تشدد کے نشان دیکھے جا سکتے تھے اور ویڈیو میں وہ معافی مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔

یہ ویڈیو اور تصویر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی جس میں کچھ لوگ عامر کے رویے پر سخت تنقید کرتے رہے لیکن بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ عامر نے جو حرکت کی اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی اور پولیس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو تھانے لے جا کر اس پر تشدد کرے اور خود ہی اسے سزا دے۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید اور کچھ بحث کے بعد ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کو نیم برہنہ دیکھا جا سکتا ہے اور اہلکار اس پر آوازیں کستے سنے جا سکتے ہیں۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس حکام متحرک ہوئے اور اس بارے میں پہلے انسپکٹر جنرل پولیس اور اس کے بعد ایس ایس پی کی جانب سے کارروائی کرنے کے بیانات سامنے آئے اور پھر ان متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا۔

عامر کے بارے میں ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ پشاور میں ایک شادی ہال میں ویٹر کے طور پر کام کرتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے شادی ہالوں کی بندش کے بعد وہ تین ماہ سے بےروزگار تھا۔

اس بارے میں تصدیق کے لیے عامر یا اس کے خاندان کے افراد سے رابطے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

تہکال کے رہائشی عامر کی ویڈیو کے بعد پشاور کے نواحی علاقے رشید گڑھی سے بھی ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں ایک نوجوان اپنا موقف دیتے ہوئے عامر کے موقف کی تائید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ عامر کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کرنا ہے کر لے۔

پولیس نے بعدازاں اس شہری کو بھی گرفتار کیا اور اس کی بھی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں اسے پولیس اہلکاروں کے سامنے معافی مانگتا ہوا دکھایا گیا ہے اور وہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے۔

پولیس اہلکاروں کے تشدد کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مثالی پولیس کے الفاظ انستعمال کرکے خیبر پختونخوا پولیس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس اصلاحات کا ایجنڈا صرف دفاتر کی تزئین و آرائش اور مہنگی گاڑیوں کی خریداری تک محدود تھا اور تھانے اصلاحات کا حصہ نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp