ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: بن ٹھن کے کہاں چلے!


 ”بھئی یہ بندش کون سے راگ میں ہے؟ “

 ”کون سی بندش، ڈاکٹر صاحب؟ “

 ”بن ٹھن کے کہاں چلے! ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے گائی ہے۔ مدت ہوئی سنی تھی۔ اب یاد نہیں آرہا۔ آپ آئے تو خیال آیا کہ پوچھ لوں۔ آپ نے تو ضرور سنی ہوگی! “

 ”نہیں سر، اتفاق سے میں نے یہ بندش نہیں سنی! آپ نے توجہ دلائی ہے تو کھوجتا ہوں۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ موسیقی سے اس قدر شغف رکھتے ہیں! “

 ”کیوں نہیں بھئی، اور کلاسیکی موسیقی کے تو کیا کہنے۔ جسے یہ ذوق نصیب ہو وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے! گئے وقتوں میں جب ریڈیو پر کلاسیکی موسیقی نشر ہوا کرتی تھی تو میں باقاعدگی سے ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ریڈیو دونوں سے یہ پروگرام سنا کرتا تھا۔ 1950ء کے بعد تک زندہ ہندو پاکستان کا شاید ہی کو ئی بڑا گویا ہو جسے میں نے نہ سنا ہو۔“ میرے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، جن سے میں ایک فارسی قلمی نسخے کا ترقیمہ (خصوصی مطالعہ) پڑھنے میں رہنمائی کے لئے گوجرانوالہ سے حاضر ہوا تھا، موسیقی سے اس قدر دلچسپی رکھتے ہیں۔ وارث شاہ کا مصرع برمحل یا د آگیا:

اِٹ سِٹ تے بھکڑا کنوار گندل، اسیں ہور وی بوٹیاں جاننے آں!

اُن دنوں ابھی تک انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہ ہوئی تھی کہ کسی بھی قسم کی درکار معلومات کے لئے جیب سے موبائل فون نکالا اور چند سیکنڈ میں گوگل سرچ کے ذریعے غلط یا صحیح معلومات حاصل کر لیں۔ لہٰذا موسیقی سے وابستہ بعض احباب سے پوچھنے، کچھ پرانی ریکارڈنگز سننے اور پھر پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی شائع کردہ ملکہ موسیقی کی سوانح عمری دیکھنے پر پتہ چلا کہ مذکورہ بندش راگ کیدارا میں ہے اور موصوفہ نے 1959ء میں اِس کا ایل پی ریکارڈ بنوایا تھا۔ چند ہفتوں بعد یہ تمام معلومات میں نے بذریعہ خط ڈاکٹر صاحب کو لکھ بھیجیں تو میری اس جستجو پر شکریہ ادا کرتے ہوئے بڑی محبت سے جواب دیا کہ کئی برس سے یہ بات اُن کے ذہن میں اٹکی تھی جو میرے توسط سے واضح ہو گئی۔

21  جون کو ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی وفات سے برِصغیر کی علمی روایت میں تحقیق کا وہ باب بند ہوگیا جس کے سرخیل انہی کے جدِ امجد حافظ محمود شیرانی تھے۔ اِس تحقیقی روایت کا نمایاں وصف بنیادی مآخذ سے استفادہ، تسامحات کی بے لاگ نشاندہی اور نیم پخت علمی نتائج سے اجتناب تھا، چاہے اِس میں برسوں صرف ہو جائیں۔

عمومًا یہ خیال کیا جاتا ہے، اور کافی حد تک درست بھی ہے، کہ محققین نہایت خشک مزاج ہوتے ہیں اور اُن کا بیشتر وقت دقیق زبان استعمال کرتے ہوئے غیر دلچسپ انداز میں تحقیقی مقالات لکھنے اور قدیم خطی نسخوں کی تدوین میں گزرتا ہے۔ عدم نے شاید ایسے ہی محققین کی بابت کہا تھا:

حسین و دلربا چہروں سے دل کا نور حاصل کر

دھرا کیا ہے ضخیم و زنگ آلودہ کتابوں میں

لیکن ڈاکٹر صاحب سے نیاز مندی کے باعث راقم کو اُن کی بذلہ سنجی اور شگفتہ بیانی سے حظ اٹھانے کا کئی بار موقع ملا۔ یہ نیاز مندی نہ صرف طویل وقفوں سے ہونے والی ملاقاتوں پر مبنی تھی بلکہ قدیم اساتذہ کی ایک اور روایت، خطوط نویسی، کے حوالے سے بھی تھی۔

اگر چہ ڈاکٹر صاحب کے شعبہ فارسی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شروع کیے جانے والے ڈکشنری پراجیکٹ کا حصہ بننے سے قبل راقم شعبہ فارسی کی لکچرر شپ چھوڑ کر سول سروس جوائن کرچکا تھا لیکن موسیقی پر لکھے گئے فارسی مخطوطات کے حوالے سے اپنی ریسرچ جاری رکھے ہوئے تھا: زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی! بعض مخطوطات پڑھنے میں دقت پیش آتی تو حسبِ فرصت اُن کے پاس حاضر ہوتا اور وہ نہایت شفقت سے میری یہ علمی مشکلات رفع کر دیتے۔ لاہور سے ٹرانسفر ہو جانے پر اوّل اوّل یہ رابطہ خطوط کی صورت میں برقرار ہوا اور بعد ازاں فون پر بھی طویل گفتگو ہو جایا کرتی۔ خط کا جواب انتہائی مستعدی سے دیتے اور اپنی نئی شائع شدہ کتاب بھی بذریعہ ڈاک ارسال فرماتے۔ ایک دو بار جب میں نے اُن کے خط نہ ملنے کا شکوہ کیا تو روایتی شگفتگی سے فرمایا: ”بھئی تم نے ڈاکئے کو عیدی نہیں دی ہوگی ناں! جس طرح ٹانگیں دابنے اور پیسے دابنے والا قصہ مشہور ہے، سو تم نے عیدی نہ دی تو ڈاکیے نے بھی تمھارے نام آئے ہوئے خط پہنچانے میں تساہل کر دیا۔ “ پھر ازراہِ شفقت فرمانے لگے کہ اِن اہلکاروں کی عید شبرات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ صحیح معنوں میں سفید پوش لوگ ہوتے ہیں۔

مرحوم پر لکھتے ہوئے یادوں کا ایک ریلا امڈا چلا آتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو اور فارسی ا دب پر تحقیق کرنے والے بیشتر اصحاب فنِ تحقیق سے متعلقہ علوم مثلاً رسم الخط، تاریخ گوئی، مخطوطہ شناسی، عروض، مسکوکات، معانی و بیان وغیرہ میں سے محض ایک یا چند میں درک رکھتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کو تقریباً تمام شعبوں پر کامل مہارت حاصل تھی لیکن اپنی منکسر المزاجی کے باعث کبھی اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے ہند و پاکستان کے اکثر اہلِ علم کی معاونت سے کبھی دریغ نہیں کیا جس کے لئے اُن سے رہنمائی لینے اور مشاورت کرنے والے ہر محقق نے اپنی کتب میں اس کا بجا طور پر اعتراف کیا ہے۔ تاہم اِس حوالے سے ایک کتاب کا ذکر ضروری ہے۔ کراچی سے انتہائی خوبصورت اور بیش قیمت انداز میں شائع ہونے والا اردو، فارسی، پنجابی، سرائیکی شاعری کا یہ انتخاب بعنوان ”کلامِ عارفاں“ جب میری نظر سے گزرا تو اغلاط کی بھرمار اور ”متن کی درستی اور ترجمے کی اصلاح“ کے لئے مرتب کی طرف سے ڈاکٹر شیرانی کا ممنونِ احسان ہونا مجھ سے ہضم نہ ہوا۔ لیکن جب موصوف سے ذکر کیا تو انھوں اسے پاسِ وضعداری پر محمول کرتے ہوئے درگزر کا مشورہ دیا جس سے مجھ پر اُن کی دوست داری کا ایک نیا پہلو واضح ہوا۔

تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی علمی شخصیت کا ایک اور وصف اُن کی شگفتہ نثر نگاری ہے جو اِلا ماشاء اللہ ہمارے اکثر محققین میں مفقود ہے۔ اُن کے قلم سے مجلہ ”فنون“ اور ہند و پاکستان کے دیگر ادبی جرائد میں شائع ہونے والے شخصی خاکے اِس بات کے گواہ ہیں۔ انھوں نے بہت سے اکابر کے ساتھ ساتھ مفصل کالجوں میں اپنے ساتھی اساتذہ اور متعدد گمنام شخصیات پر اِس خوبصورت انداز میں لکھا ہے جو اُن کے گہرے مشاہدے اور حساس طبیعت کا آئینہ دار ہے۔

تاریخ گوئی کے حوالے سے اُن کے بامعنی اسلوب کو دیکھتے ہوئے اکثر احباب ان سے فرمائشی قطعہ ہائے تاریخ لکھواتے نیز بعض اوقات وہ خود بھی کسی واقعے یا کتاب کے حوالے سے قطعہ تاریخ موزوں کر دیتے۔ 2007ء میں رشید ملک صاحب کی وفات پر جب میں نے اُن سے اِس خواہش کا اظہار کیا تو بڑی دیر تک مرحوم کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔ مجلسِ ترقی ادب کے دفتر میں جمنے والی نشستیں جن میں احمد ندیم قاسمی، سید محمد کاظم اور کئی دیگر فضلا سے اُن کی صحبتیں رہیں، سب کا تذکرہ ہوتا رہا اور پھر چند ہفتوں بعد مجھے بذریعہ ڈاک یہ قطعہ ملا:

مشفق و مہرباں رشید ملک

لو روانہ ہوئے بسوئے فلک

دل میں اک ٹیس درد کی اٹھی

جام آنکھوں کے بھی گئے ہیں چھلک

باتیں اُن کی سدا رہیں گی یاد

دیکھ پائیں گے گو نہ اُن کی جھلک

تیغِ برّاں کے مثل اُن کا قلم

حرفِ حق گوئی اُن کا تھا مسلک

فکر کردم چو بہر تاریخش

بہ کمک آمدہ ز چرخ ملک

سالِ رحلت بگفت ہاتف ”کو

مردِ درویش دل رشید ملک ”

( 1428ہ)

ملک صاحب سے شرفِ ملاقات رکھنے والے احباب تائید کریں گے کہ موصوف کی شخصیت کو شیرانی صاحب نے کس جامع انداز میں اِن چند مصرعوں میں بیان کر دیا ہے۔ شومیِ قسمت کہ دوران سفر مجھ یہ خط کھو گیا جس پر میں نے بارِ دیگر اُن سے یہ قطعہ فراہم کرنے کی درخواست کی جو انھوں نے بہ کمالِ شفقت قبول فرمائی۔ تاہم اِس حوالے سے اچھی بات یہ ہوئی کہ محترم سید فخر حسین بخاری نے یہ تمام قطعہ ہائے تاریخ ”مجموعہ گلہائے تاریخ“ ( 1441ہ) کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کرا دیے ہیں جن کی تعداد سو سے متجاوز ہے اور اِن میں ہند و پاکستان کی نامور علمی شخصیات کے ساتھ ساتھ اعزہ و اقارب کی وفات، کتب کی اشاعت اور بعض دیگر واقعات کو بھی تاریخًا نظمایا گیا ہے۔

شیرانی صاحب سے راقم کا آخری رابطہ چند ماہ پہلے ہوا۔ محبی ڈا کٹر بابر آسی نے فون پر بتایا کہ شیرانی صاحب آج کل ہفتے میں ایک دن شعبہ فارسی تشریف لاتے ہیں۔ آج آئے تھے اور خاکسار کو یاد کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ آئندہ ہفتے جب آؤں تو مجھ سے رابطہ کرانا۔ لہٰذا آپ کا فون نمبر کنفرم کر رہا ہوں۔ میں نے اگلے ہفتے کا انتظار کرنے کے بجائے اُسی وقت شیخوپورہ اُن کے گھر کے نمبر پر فون ملایا اور عرض سلام کیا تو فرمانے لگے کہ وہ ملازمت کے آغاز میں کچھ برس مظفر گڑھ میں بطور لکچرار تعینات رہے تھے اور فروری 3691 ء میں وہاں سے پستول کا لائسنس بنوایا تھا جسے شیخوپورہ ٹرانسفر کرانا مقصود ہے، کیونکہ اب اسلحہ لائسنس کمپپیوٹرازڈ شناختی کارڈ پر لکھے ایڈریس والے ضلعے میں ہی درج کرانا ضروری ہے۔ بالائے ستم یہ کہ اُن کے کوائف کی ابتدائی تصدیق کے بعد یہ کیس گذشتہ کئی برس سے ضلع مظفر گڑھ کی اسلحہ برانچ میں کسی بہانے سے زیرِ کارروائی پڑا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ رسید کی نقل بھجوا دیجیے، میں ترجیحاً کرا دیتا ہوں، تو کمال سادگی سے فرمایا کہ ہاں اگلے ہفتے لاہور آتا ہوا لیتا آؤں گا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ سمارٹ فون وغیرہ استعمال نہیں کرتے لہٰذا میں نے برادرِ عزیز ڈاکٹر بابر آسی سے درخواست کی کہ متعلقہ کاغذات مجھے بذریعہ واٹس ایپ بھجوا دیں۔ چند روز بعد کاغذات ملنے پر مظفر گڑھ سے پتہ کرایا تو وہی دفتری عذر سامنے آئے کہ متعلقہ اہلکاروں اور افسران کے مسلسل تبادلوں کے باعث نادرا کے مقامی دفتر سے بائیو میٹرک تصدیق کا عمل کافی عرصہ سے زیرِ التوا ہے۔ بصد کوشش کسی اہلکار کو مامور کرایا کہ کئی برس سے التوا میں پڑے اِس لائسنس کی نادرا سے تصدیق کراکر شیخوپورہ منتقل کرائے تاکہ وہاں سے تجدید شدہ کاپی لی جاسکے اور لائسنس ہولڈر کا نیا مستقل پتہ نادرا کے ریکارڈ میں درج ہو جائے، مگر اِسی دوران کورونا کی وبا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ کے دفاتر محدود عملے اور برانچز کے ساتھ کھلنے لگے اور نادرا کے دفاتر کچھ عرصہ کے لئے مکمل بند ہوگئے۔ اِسی دوران سناؤنی آگئی اور لائسنس ہولڈر ایسی دنیا سدھار گیا جہاں کسی قسم کا اسلحہ ہمراہ رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

21 جون کو جب مرحوم کے آخری دیدار کی تصویر اخبارات وغیرہ پر دیکھی تو سفید کفن میں لپٹا مطمئن چہرہ دیکھ کر جی چاہا کہ پوچھوں : بن ٹھن کے کہاں چلے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments