سفرنامہ۔ ایک فکشن


کل رات اس پہاڑی پر دیودار کے درختوں نے ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے مجھے یاد کیا تھا۔ میں نے صبح صادق شہر میں انسانی زندگی کی کچھ تصویریں ساتھ لیں اور اس پہاڑی کی جانب اڑنا شروع کر دیا۔ پہاڑی کے بالکل شروعاتی حصے میں موجود شفاف چشمے سے پانی پیتے ہوئے، چشمے کے اندر سے میرے ایک ہم شکل نے گرمجوشی سے مجھے خوش آمدید کہا، ہم دونوں نے ایک دوسرے کا حال چال دریافت کیا اور پھر میں نے سفر دوبارہ شروع کر دیا۔ کچھ آگے پہنچ کر ہلکی تیز ہوا میں درختوں کے جھنڈ کا ایک جرگہ جاری تھا، وہ تمام درخت اس فیصلے پر پہنچنے کے لئے دلائل دیں رہیں تھے کہ کائنات کے حسن کی بقا کا راز کس چیز کے اندر پوشیدہ ہے۔

ایک درخت جس کا تنا آرے کے ذریعے نیچے سے آدھا کٹا ہوا تھا، وہ اس بات پر دوسرے درختوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ فرنیچر میں ایک زندہ درخت سے زیادہ کشش ہے اور آگ پر پکنے والے گوشت میں ایک زندہ درخت اور چہچہاتے ہوئے پرندے سے زیادہ لذت ہے۔ درخت پر بیٹے ہوئے کچھ اداس پرندوں کے بھی یہی خیالات تھے۔ ہوا کچھ کم ہوئی تو تمام درخت میری جانب متوجہ ہوئے کہ میری کیا رائے ہے۔ میری رائے جاننا دراصل ان درختوں کی وسعت نظریوں کا ثبوت تھا کیونکہ میں درخت نہیں تھا۔

”میں یہاں پر زندگی کے حقیقی خوبصورت احساسات کو اپنے اندر جذب کرانے کے لئے آتاہوں، میں یہاں پہچ کر اپنے ہونے کا لطف اٹھا لیتاہوں، چشمے میں مجھے خوش امدید کہنے والے بندے سے باتیں کرکے میری تھکن اتر جاتی ہے، پہاڑی کے چوٹی پر درختوں کے جھنڈ میں چرواہے کی بانسری کے سر میں مجھے قدرت کے ساز سنائی دیتے ہیں“ ۔ میری رائے جان کر تمام درخت سوچ میں پڑگئے۔ جس درخت کا تنا کٹا ہوا تھا اس کی آنکھوں میں شکویں تھے لیکن میرے اختیار میں اسے دلاسا دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

میں نے درخت پر بیٹھے ہوئے کبوتر کو اشارے سے نیچے آنے کی درخواست کی۔ یہ وہی کبوتر تھا جو میرے ساتھ پچھلے سال میرے گھر جانے کے لئے راضی نہیں ہورہا تھا۔ میں نے پھر سے وہی فرمائش اس کے سامنے رکھ دی، لیکن وہ کبوتر خاموش رہا۔ اس کی خاموشی سے مجھے دو باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ ایک تو یہ کہ مصلحت کی خاطر یہ مجھے انکار نہیں کرنا چاہتا، اور دوسری بات یہ کہ یہ یہاں سے جانا بھی نہیں چاہتا۔ میں نے ضد کرنے کی بجائے بات بدل کر اس کے مصروفیات کا حال دریافت کیا، تو اس نے جواب دیا کہ وہ ان دنوں گھونسلا بنانے کی فکر میں ہے کیونکہ بچے دینے کا وقت قریب ہے۔

اس نے میرے گھر میں موجود دوسرے کبوتروں کا حال چال دریافت کیا اور باتوں باتوں میں مجھے اشارہ بھی دیں دیا کہ مجھے ان تمام کبوتروں کو یہاں پر لاکر چھوڑ دینا چاہیے۔ مجھے اس کی اس بات میں واقعی وزن لگا، جب میں یہاں شہر سے زیادہ خوش رہتاہوں تو کبوتر تو پھر بھی کبوتر ہیں، وہ یہاں پر ان چوٹیوں اور درختوں کے وسط میں رہ کر کم از کم میرے شہر والے گھر سے تو زیادہ خوش رہیں گے۔ میں واقعی انھیں اگلی بار اپنے ساتھ یہاں لانے کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن میں ان کبوتروں کے بغیر اپنے گھر میں کیسے رہوں گا؟ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ پہاڑی کے وسط سے بانسری کی آواز سنائی دینے لگی۔ شاید وہ چرواہا اپنے بھیڑوں اور بکریوں کے ساتھ وہاں آں پہنچا تھا۔ میں نے اپنے بیگ سے وہ تمام تصویریں نکال دیں جس سے شہر میں انسانی زندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔

میں جب پچھلی بار یہاں یہاں آیا تھا تو ان تمام بکریوں اور بھیڑوں نے مجھ سے شہر، شہر اور انسان کے زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق سوال پوچھے تھے۔ ان سب نے مجھے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو ایک جگہ جمع ہوگئے۔ انھیں یقیناً امید تھی کہ میں انھیں اور کہانیاں سناؤں گا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک ایک تصویر ان سب کو باری باری دکھائی۔ تصویریں دیکھ کر ان کے حیرت میں اور اضافہ ہوگیا اور ایک بھیڑ نے پوچھ ڈالا کہ یہ خودکشی حقیقت میں پیش آتی ہے یا یوں ہی ایک اصطلاح ہے۔

یہ سوال اس کے ذہن میں چھت سے کھودنے والے ایک 22 سالہ لڑکے کی موت کی تصویر دیکھ کر آیا تھا۔ ”ہاں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں“ ، میں نے جواب دیا۔ لیکن کیوں؟ ایک بکری نے اگلا سوال پوچھا۔ ”کیوں کا جواب دینے کے لئے وہ بندہ زندہ نہیں رہتا جس کے پاس اصل جواب ہوتا ہے کہ یہ قدم اس نے آخرکار کیوں اٹھایا تھا، باقی لوگ وجوہات اور کہاناں بناتے رہتے ہیں جس پر میں خود یقین نہیں رکھتا“ میں نے جواب دیا۔ ”اس کا مطلب ہے وہ راز جس کی وجہ سے کوئی خودکشی کرلیتا ہے وہ تاحیات راز ہی رہے گا“ ایک بوڑھے بھیڑ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

”ایسا نہیں کرنا چاہیے، زندگی کم از کم موت سے بہت خوبصورت ہوتی ہے“ دو بکروں نے آپس میں بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہا۔ ”بالکل زندگی خوبصورت ہے“ میں نے دہرایا۔ چرواہے نے بانسری دوبارہ بجانا شروع کردی۔ بانسری سے نکلنے والا ہر سر وہاں موجود تمام بھیڑ، بکریوں، پرندوں، درختوں اور ہواؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ”زندگی خوبصورت ہے“ ۔ اس کے بعد چرواہے نے مجھے اپنے ساتھ دوپہر کے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ کھانا مکھی کی روٹی، پیازاور تازہ دودھ پر مشتمل تھا۔

کھانے سے فارغ ہوکر میں نے چرواہے کا شکریہ ادا کیا اور سب سے بلند چوٹی کے لئے روانہ ہوگیا۔ راستے میں ایک سحر انگیز جھیل میرے سامنے آئی جو پچھلی دفع میں نے نہیں دیکھی تھی، کیونکہ اس دفعہ میں دوسرے راستے سے ہوکر چوٹی پر پہنچا تھا۔ جھیل کے کنارے کھڑے چنار کے درخت نے مجھے خوش آمدید کہا۔ منظر محسور کن تھا، بادل جھیل تک آئے ہوئے تھے اور نیلے پانی کے اوپر سے گزرتے ہوئے میرے ذہن کو ایک سکون بخش کیفیت میں مبتلا کر رہے تھے۔

کچھ لمحے اس سحر انگیزی میں جی کر جب میں نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو چنار کے درخت نے یہ کہہ کر مجھے روک لیا کہ ابھی یہاں پر پریوں کے اترنے کا وقت ہونے والا ہے۔ میں ایسے منظر کو نہ دیکھنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بادلوں کے سائے میں پریاں اترنے لگیں۔ ان کے ہنستے، مسکراتے چہریں جھیل، جھیل کے کنارے کھڑے چنار اور میری زندگی کو طوالت بخش رہے تھے۔ مجھے بچپن والی ہر ایک وہ کہانی یاد آ گئی جو دادی سے پریوں کے بارے میں سنی تھی۔ میں نے پریوں نے بہت طرح طرح کے سوالات پوچھے اور کئی باتیں کیں۔ ان سب نے مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت بھی دی، اور میں نے اگلی بار ان کے ساتھ جانے کا وعدہ بھی کر لیا۔

وہاں سے ہوکر میں جب سب سے بلند چوٹی پر پہنچا تو بادل میرے پیروں میں تیر رہے تھے۔ یہ وقت مجھے سب سے زیادہ سکون بخش محسوس ہوا تھا۔ بادلوں سے باتیں کرتے کرتے میں نے اپنے بیگ سے وہسکی کا بوتل نکالا اور ایک بڑے پھتر پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ وہسکی کے دو تین کپ پینے کے بعد میں نے بادلوں سے ان کے آغوش میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بادلوں نے میری خواہش کا لاج رکھتے ہوئے مجھے آغوش میں لے لیا۔ میں شام ہونے سے پہلے ہی بادلوں میں پوری طرح جذب ہوگیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments