سارہ کی دنیا مسکرانا کیسے بھول گئی؟


حامد اور سارہ آپس میں کزن ہونے کے ساتھ ہم عمر بھی تھے اور دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت بھی کمال کی تھی۔ بنا کہے ایک دوسرے کی بات کو سمجھ لینا، روٹھیں تو فوراً ایک دوسرے کو منا لینا نہ صرف یہ بلکہ دل کی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرنا۔

سارہ کے گھر والے بہت سمجھدار اور سلجھے ہوئے جبکہ حامد کے والدین روایتی والدین کی طرح اولاد کو ڈنڈے کے زور پہ بات منوانے والے اور ضدی تھے۔ مگر دونوں اطراف حامد اور سارہ کی شادی پہ بخوشی رضامند تھیں۔ دونوں ابھی انٹرمیڈیٹ میں ہی پڑھ رہے تھے کہ منگنی ہو گئی۔

حامد نے گریجوایشن کے بعد فوراً بعد ہی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کر لی پوسٹ اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قابلیت کو پرکھتے ہوئے افسران بالا نے تنخواہ بھی پرکشش مقرر کی۔ اگلے ہی روز حامد کے والدین مٹھائی لے کر نہ صرف اس کی جاب کی خوشخبری دینے سارہ کے گھر پہنچ گئے بلکہ شادی کے دن رکھنے کی خواہش بھی ظاہر کر دی۔ باہمی رضا مندی سے شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی اور تیاریاں بھی پرجوش طریقے سے شروع کر دی گئیں۔

حامد نے سارہ کو کال کی اور شاپنگ پہ ساتھ چلنے کو کہا، سارہ جس چیز پر ہاتھ رکھتی حامد وہی اسے لے کر دیتا اس کے چہرے پہ خوشی اور مسکراہٹ اسے سکون دیتی۔ دونوں کچھ دیر کے لیے ایک ریسٹورینٹ میں کھانے کے لیے رکے

سارہ تمہیں معلوم ہے دنیا میں میرے لیے سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟ حامد نے سارہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا
”میں“ سارہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
نہیں اس سے بھی قیمتی کچھ ہے ”حامد مسکرا کر بولا
وہ کیا؟
”تمہاری مسکراہٹ!
جانتی ہو جب تم مسکراتی ہو تو مجھے لگتا ہے کائنات کی ہر شے مسکرا رہی ہے ”

” حامد میری مسکراہٹ تمہاری وجہ سے ہے کیونکہ تم میرے ساتھ ہو تمہیں میری مسکراہٹ میں دنیا نظر آتی ہے اور میری دنیا تم میں مقید ہے۔“

” میں ہم دونوں کی اس دنیا کو کبھی دور نہیں ہونے دوں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے“

بہت دھوم دھام سے دونوں کی شادی ہو گئی سب بہت خوش تھے۔ اور یہ خوشیوں بھرے دن پلک جھپکتے گزرتے جا رہے تھے۔ حامد نے شادی کے تقریباً پندرہ دن بعد آفس جانا شروع کر دیا مگر ہر گھنٹے بعد سارہ کو حامد کی کال آتی

”کیا کر رہی ہو؟
دل نہیں لگ رہا میرا آفس میں! ”

حامد دل لگا کر کام کریں ورنہ باس سے ڈانٹ پڑ جائے گی آج آپ کی فیورٹ ڈش بنا رہی ہوں بعد میں بات کرتے ہیں ”

دونوں ایک دوسرے کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے گو کہ حامد کی اماں ایک روایتی ساس تھیں جو بات بے بات سارہ کو کچھ نہ کچھ سنا دیتی مگر حامد کی محبت سارہ کو ہر کڑوی بات سننے کا حوصلہ دیتی اور وہ مسکرا کر ہر بات کو برداشت کر جاتی۔ یونہی دو سال بیت گئے مگر اب سارہ کی کایا پلٹنے کو تھی۔ رشتہ دار، ہمسائے تو دور اب تو ساس نے بھی جینا حرام کر دیا تھا۔ سارہ نے ایک دن پڑوسن اور اپنی ساس کی باتیں سن لیں۔ ۔ ۔

بہن میں بتائے دے رہی ہوں تمہاری بہو بانجھ ہے یا تو علاج کروا کر دیکھ لو یا حامد کے لیے لڑکی دیکھنا شروع کرو ”

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو میں دو تین ڈاکڑوں کے پاس لے کر گئی مگر منحوس کوئی خوشخبری نہ سنا سکی۔ اور تو اور وہ جو اپنے بنگالی بابا ہیں انہوں نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ تیری بہو کی قسمت میں اولاد نہیں ”

سارہ کی برداشت کی اب حد ہو چکی تھی۔ اب تک حامد سے کبھی شکایت نہ کی تھی اس کے گھر والوں مگر اب سب کہہ گزری

”میں ابھی آفس سے تھکا آیا ہوں تم یہ کیا بکواس لے کر بیٹھ گئی ہو“ حامد غصے میں بولا
حامد میں تنگ آ چکی ہوں آپ کی اماں کی ان باتوں سے اب برداشت نہیں ہوتا مجھ سے ”
مجھے یہ رونا دھونا پسند نہیں کیا ایسا غلط کہہ دیا اماں نے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہی تو کہتی ہیں

سارہ کو کسی بات نے اتنا نہیں توڑا تھا جتنا وہ اب حامد کے اس رویے سے ٹوٹ چکی تھی۔ وہی حامد جو اس کی مسکراہٹ کا دیوانہ تھا اب اس کے آنسو بہانے سے رتی بھر بھی فرق نہ پڑتا تھا اسے، آفس جا کر کال کرنا تو دور میسج کا ریپلائے دینا گوارا نہ کرتا، گھر بھی اب لیٹ آتا اور سارہ کو اگنور کرتا۔ ایک جھگڑے کے بعد حامد نے سارہ کو گھر سے نکال دیا اور وہ میکے چلی گئی۔ حامد کی اماں نے اب اس کے لیے لڑکی دیکھنا شروع کر دی مگر زیادہ دور نہ جانا پڑا یہ تو اسی پڑوسن کی بیٹی تھی جو اسے آئے روز حامد کی دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیتی تھی۔

شادی کے کارڈ چھپ گئے۔ اور ایک کارڈ سارہ کے گھر بھی پہنچا ٹیبل پر پڑے اس کارڈ کو جب سارہ نے کانپتے ہاتھوں سے کھولا تو حامد کا نام کسی اور کے نام کے ساتھ لکھا دیکھ کر اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ تمام لمحے بھی بہہ گئے جن میں کبھی حامد نے کہا تھا کہ ”جب تم مسکراتی ہو تو لگتا ہے کائنات کی ہر شے مسکرا رہی ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments