نطفہ خاص


آدھی رات کو جب نرس کی تیز قدموں نے انتظار کرنے والے کمرے کی خاموشی میں خلل پیدا کرنا شروع کیا تو عبداللہ کے دل کا شور بھی اس کے حلق سے نکل کر اپنا وجود دنیا کو دکھانے کی کوشش کرنے لگا، یہ وہ شور تھا جسے عبداللہ نے کئی سالوں سے اپنے حلق کے نیچے ایک کٹھن قیدخانے میں کسی طرح قید کر رکھا تھا۔ نرس نے کمرے میں داخل ہوکر نئے مہمان کی صحیح سلامت آمد کی خبر دی اور یہ خبر خوشخبری میں اس وقت تبدیل ہوئی جب نرس نے کہا کہ نو مولود لڑکا ہے، عبداللہ کے چہرے پر وہ خوشی پھر نمودار ہوئی جسے حرام ہوئے کئی سال ہو چکے تھے، لڑکے کی پیدائش کی خوشی میں عبداللہ نے اپنے سینے میں قید اس شکایتی شور کو بھی بڑی تیزی اور خاموشی سے رہا کیا اور اس قیدخانے کو مسمار کرکے اپنے سینے کو اس بوجھ سے ہلکا کیا۔

عبداللہ کے افزائش نسل کی پہلی چار کوششوں کا نتیجہ بیٹیوں کی صورت میں آیا تھا بس پھر کیا تھا، عبداللہ کو اپنے بعد اپنے نام کے مٹ جانے کا غم ستانے لگا اور اسی غم نے اس شور کو جنم دیا جسے عبداللہ نے بڑے مشکل سے اپنے سینے میں قید کر رکھا تھا۔ عبداللہ خود بھی، لوگوں اور خاندان والوں کی ان ترس بھری نگاہوں سے اپنے لئے آزادی چاہتا تھا جو اسے چار بیٹیوں کا باپ ہونے کی وجہ سے محاصرے میں لئے ہوئے تھی۔

عبداللہ کا چھوٹا بھائی محسن تین بیٹوں کا باپ تھا اور عبداللہ دل ہی دل میں اسے جنتی سمجھتا تھا شاید اس عجیب منطق کی وجہ عبداللہ کا کسی امام کا جمعہ کے خطبے میں یہ بیان سننا تھا کہ ”آخری وقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہوگی کہ اس زمانے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوگی“ ۔

اتفاقاً عبداللہ بھی چار مزید جنس مونث کو اس دنیا میں لا چکا تھا، بہت ممکن ہو کہ عبداللہ خود کو قیامت کو قریب تر لانے کا گناہگار معاون سمجھتے رہتا تھا۔

پہلے پہل شادی کرنا عبداللہ کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں تھا، وہ پڑھنا چاہتا تھا کچھ کرنا چاہتا تھا، وہ کچھ بننا چاہتا تھا جو اسے پسند ہو۔ پر گھر والوں، رشتہ داروں، دیگر عزیز و اقارب نے اسے شادی کے فائدے، ثمرات اور اہمیت کی طویل کہانیاں سنا سنا کر شادی کا قائل کر دیا۔ اسے شروع شروع میں یہ وہم بھی ہونے لگا کہ شاید اس کی شادی خاتمے کے نہج پر پہنچی ہوئی انسانی نسل کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔ اور اس ختم ہوتی انسانی نسل کو صرف اور صرف اسی کے نطفہ سے ہی بچانا ممکن ہے۔ عبداللہ کا یہ احمقانہ وہم اس وقت اپنی موت آپ مرا جب اس کے چھوٹے بھائی محسن کی شادی کروانے کی باری آئی اور وہی تمام افادیت سے بھرپور پرانی کہانیاں اسے بھی لفظ بہ لفظ سنائی گئی اسے قائل کرنے کے لئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبداللہ کو اس سماجی مثلث کا بھی علم ہوا جس کا پہلا کونا پیدائش، دوسرا کونا رشتہ اور تیسرا کونا شادی ہوتا ہے۔ اور یہ مثلث لگاتار انہیں تینوں کونوں کو ایک کے بعد ایک اوپر نیچے کرکے بدلتے رہتا ہے۔

مثلاً:
پیدائش، رشتہ، شادی
شادی، پیدائش، رشتہ
رشتہ، شادی، پیدائش۔

اس مثلث کا تسلسل پیڑی در پیڑی پرانا بھی ہے اور آج کے زمانے تک کے لئے اثر انگیز بھی، یہ مثلث سماجی حکمت، سمجھ اور دانائی کا نچوڑ ہے۔

خیر، عبداللہ نے اپنے بیٹے کا نام نعمت اللہ رکھا جس کا مطلب ہے اللہ کی نعمت، آخر اسے اس سے بہتر اور کیا نام دیا جاسکتا تھا، جو باپ کا نسل آگے بڑھا سکے اور اس کا نام مٹنے سے بچا سکے وہ اللہ کی نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً بیٹے کی پیدائش سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں گے ، ورنہ ایسے ہی بلامطلب فضول میں تو کوئی خود کو اولاد نرینہ کے لئے ہلکان نہیں کیا کرتا۔

ثاقب نذیر
Latest posts by ثاقب نذیر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments