صاحبِ منبر کو گارڈ تو رکھنے پڑیں گے


پاکستان میں کسی مبلغ یا عالم دین کی ریٹنگ، یا دوسرے معنوں میں مقبولیت کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ اس کے لیے کن عوامل کا ہو نا ضروری ہے؟

تنازعات پر مبنی شہرت پر لگا کر اڑتی ہے۔ پاکستان کی تیس فی صد آبادی ڈگری کی حد تک پڑھی لکھی ہے۔ علمی و ادبی معیار پر آبادی کا تناسب شاید پانچ فی صد سے بھی کم ہو۔ آج کل جیسے جیسے فاصلے سمٹ رہے ہیں، ویسے ویسے شہرت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہر شخص اپنی مرضی کے الفاظ سننا اور اپنی مرضی کا منظر دیکھنا چاہتا ہے۔ غور و فکر سے بے بہرا، علمی و ادبی سوچ سے بے نیاز ہجوم کو اس کی مخالف سوچ اور نظریے کے حامل لوگوں سے سے متصادم کرنے اور خطیبانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے صاحب منبر کو ایسا مواد اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ جو مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو وقتی تسکین کے ساتھ دوسروں کے عقائد پر ٹھٹھا لگانے کا سامان بھی مہیا کرے۔ جب الفاظ کے تیر کم پڑ جائیں تو مخالف کی جان لینے سے ہی دل کی تسلی ہوتی ہے۔ منبر پر بیٹھے شخص کا حلیہ، زبان اور حرکات و سکنات مخصوص ہوتی ہیں۔ سامنے بیٹھا ہجوم اور اس کا رد عمل بھی مخصوص ہوتا ہے۔ دوسروں کے عقائد پر کڑی تنقید کرنے اور پھبتیاں کسنے سے ہی اس کی شہرت بڑھتی ہے۔

شعلہ بیانی ہو یا نرم گوئی، حلق کی کارفرمائی کے گل جب کھلتے ہیں، تو قائد ہجوم کا طوطی بولنے لگتا ہے۔ قدر و منزلت، دولت، شہرت اور ہر دل عزیزی کے ساتھ مخالفین کے ساتھ کدورتیں اتنی بڑھتی ہیں کہ قائد ہجوم کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اب دائیں بائیں گارڈ ناگزیر ہوئے تو دشمن نے بھی اپنی چالیں تیز کر دیں۔ حق، سچ اور عقیدے کی بقا کی خاطر جان لینے کے عیوض جان دینے کو تیار ہو گئے۔

عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علما کو کسی غیر مسلم کی طرف سے جان کا خوف نہیں۔ وہ اتحاد بین المذاہب کے داعی ہیں، جب کہ اتحاد بین المسلمین، ان کی مقبولیت اور روزگار کے لیے خطرہ ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا کا شاید ہی کو ایسا خطہ ہو جہاں پنڈت، عالم، مولوی، امام غیر محفوظ ہوں۔ علم ایک ایسا خزانہ ہے جسے چرایا نہیں جا سکتا لیکن یہ خزانہ بانٹنے والا غیر محفوظ ہے۔

علم کی بانٹ سے کچھ نہال اور کچھ کی تیوری پر بل ہیں۔ علم تو نرم و نازک، مہکتے پھول کی مانند ہوا کرتاہے۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ علم کے خزانے میں ملاوٹ کر دی گئی ہے، پھولوں کے ساتھ کانٹے اور نوکیلے شیشے بھی شامل کر دیے گئے ہیں، جن کی چبھن نے علمی و ادبی روح سے خالی دماغ اور محبت سے عاری دلوں کو غضب ناک کر دیا ہے۔ پھر اس غضبناک گروہ کی قیادت ایک ایسے باعلم، شعلہ بیاں مقرر کو سونپ دی جاتی ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں گروہ در گروہ علم کے خزانے سے بے دماغ ہجوم کی ریشہ دوانیوں کو مہمیز کرنے کے لیے بندر بانٹ کا سلسلہ جا ری رہتا ہے۔

اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو قبائل اور برادری میں مختلف وجوہات کی بنا پر دشمنیاں چلتی رہتی تھیں۔ ان سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی جان کو خطرات بھی لاحق تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے محافظ رکھے یا ایسی کوئی خواہش رکھی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام کے علمی عروج کے دور میں نہیں ملتا۔ طاقت ور حکمرانوں کے دور میں صعوبتیں برداشت کرنے اور شہید ہونے کے حقائق بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔

تقسیم کے بعد نظریات و عقائد میں تقسیم در تقسیم کے ساتھ چاروں جانب برداشت کا مادہ کم اور اشتعال انگیز مواد کی ضخامت میں اضافہ ہوتا گیا۔ محبت، بھائی چارے انسان دوستی، انصاف پروری کے بیانات صرف اپنے اپنے فرقوں تک محدود کر دیے گئے۔

عالم، کل عالم ہوتا ہے اس کا پیغام آفاقی ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی شخص اس کے علم سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔

ایک ہی موضوع پر دس ہزار کتابوں کے پڑھنے اور کچھ کتابوں کے لکھنے سے کسی شخص کا پڑھا لکھا ہونا تو ثابت ہوتا ہے پر غور و فکر سے بے نیاز شخص عالم نہیں ہو سکتا۔ وہ درویش صفت ہوتا ہے۔ وہ حرص و ہوس کا شکار نہیں ہوتا۔ محبت کے جواب میں محبت وصول کرتا ہے۔ ایک عالم اس سے بلا تفریق مسلک و مذہب فیض اٹھا سکتا ہے۔

لیکن اگر وہ محض نظریاتی بنیادوں پر اپنے فرقے کو درست اور اس کے ماننے والوں کو جنت کی بشارت دیتا رہے گا تو محبت کرنے والے محدود اور دشمن لا محدود ہوں گے، نتیجے کے طور پر اسے دائیں بائیں آگے پیچھے محافظ رکھنے پڑیں گے۔ محبت، بھلائی، فلاح، علم، ترقی، حوصلہ، ہمت، درگزر کا پیغام پہنچانے اور تاریخ سے سبق دینے والے عالم کو ہوا بھی نہیں چھو سکتی۔ چہ جائکہ اس کے مہمان خانے کے اندر بھی حفاظتی پہرے دار چوکس ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments