سُشانت سنگھ نے خودکشی کیوں کی؟: اس حوالے سے ان کے قریبی ساتھی کیا کہتے ہیں؟


اس رات سُشانت نے سیارہ زحل کے چھلے دیکھے تھے، آسمان میں کروڑوں کلومیٹر دور یہ منظر دیکھتے ہوئے انھوں نے چاند کا بھی مشاہدہ کیا۔ اس دوربین سے جو انھوں نے چمبل کی گھاٹیوں میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے دھول پور میں نصب کی تھی۔

سشانت نے انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے دھول پور میں اپنی فلم ’سون چڑیا‘ کی عکس بندی کے دوران کچھ راتیں لامحدود آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گزاریں تھیں۔

رنویر سنگھ شورے برسوں پہلے گزارے گئے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’کیا بتاؤں کیسے تھے سُشانت، تھوڑے مخلتف تھے، کس طرح سُشانت نے مجھے ریاضی کے اصولوں کے بارے میں بتایا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سوشانت سنگھ کی موت اور ’اقربا پروری‘، بالی وڈ اور سوشل میڈیا منقسم

معروف شخصیات کی موت کو تماشہ کیوں بنا دیتا ہے میڈیا؟

رنبیر کپور کا بالی وڈ میں اقربا پروری کا اعتراف

رنویر کو سُشانت کی موت کے بارے میں سوچ کر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک بالی وڈ ایک بے رحم جگہ ہے لیکن جب تک سُشانت کو کنارے لگایا جاتا وہ سٹار بن چکے تھے۔

رنویر کہتے ہیں کہ بالی وڈ کی چمکتی دمکتی زندگی میں کامیابی کب آپ سے روٹھ جائے پتا نہیں چلتا۔

’یہاں کامیابی کا ایک فارمولا تیار کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ یہ ایک بے رحم بازار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ متعصب میڈیا بھی ہے۔‘

سوشانت

رنویر کا کہنا ہے کہ سُشانت کی موت کا سوچ کر ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بالی وڈ بے رحم جگہ ہے لیکن جب تک سُشانت کو کنارے لگایا جاتا وہ سٹار بن چکے تھے

’سُشانت ایک حقیقی سٹار تھا‘

رنویر سنگھ شورے بتاتے ہیں کہ ’سُشانت کی شخصیت میں ایک قسم کی بے چینی اور ایک بے تاب توانائی تھی۔ وہ شرمیلا اور اپنی ہی دنیا میں گم رہنے والا انسان تھا۔‘

بالی وڈ کی دنیا میں سُشانت کے سفر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سٹار دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو باکس آفس چلاتے ہیں اور دوسرے وہ جنھیں میڈیا اور اقربا پروری سٹار بناتی ہے۔

’سُشانت ایک حقیقی سٹار تھا۔ لیکن اگر آپ مخصوص کلب کے ممبر نہیں ہیں تو آپ کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ آپ کو رد کر کے آپ کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔‘

14 جون کو 34 سالہ بالی وڈ اداکار سُشانت سنگھ راجپوت کی لاش ممبئی کے علاقے باندرا میں ان کے فلیٹ میں ملی تھی۔ بظاہر انھوں نے خود کشی کی۔

سوشانت

14 جون کو 34 سالہ بالی وڈ اداکار سُشانت سنگھ راجپوت کی لاش ممبئی کے علاقے باندرا میں ان کے فلیٹ میں ملی تھی، بظاہر انھوں نے خود کشی کی

سشانت سنگھ کی شخصیت کیسی تھی؟

رنویر بتاتے ہیں کہ سُشانت کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے جو کچھ عیاں اور کچھ بند تھے۔

’ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے مطالعے کے ذوق سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انھوں نے فلپ روتھ اور والڈو ایمرسن کو پڑھ رکھا تھا۔

’وہ ای ای کمنگس کا قول بھی نقل کرتے تھے۔ انھیں پیٹر پرنسپل نامی تصور کا علم تھا۔ وہ خلا اور فلکیات کے علم کے متعلق جانتے تھے۔ ان کے پاس 200 کلوگرام کی بھاری بھرکم دوربین تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سشانت یادداشت کے ضیاع سے واقف تھے۔ انھیں بلیک ہول اور چاند کے گڑھوں کے بارے میں بھی علم تھا۔

’وہ ’ڈارک سائڈ آف مون‘ کے بارے میں بھی جانتے تھے۔ وہ فلسفی نیتژے کے بھی داعی تھے اور اکثر ان کے قول کو دہراتے تھے کہ ’اگر آپ دیر تک خلا کو گھورتے ہیں تو وہ بھی آپ کو گھورنے لگتی ہے۔‘

چھوٹے شہر کا اونچے خواب دیکھنے والا لڑکا

بالی وڈ اداکار سشانت سنگھ کی خود کشی پر بہت سے سازشی نظریات سامنے آئے جنھیں ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کہیں بالی وڈ میں اقربا پروری کی مذمت کی گئی تو کہیں میڈیا کے کردار پر سوال اٹھے۔

کبھی محبت میں ناکامی اور کبھی دھوکا دہی کے باتیں ہوئیں لیکن ان سب میں ڈپریشن کی کہانی غائب تھی اور شاید یہی اس خود کشی کی افسوسناک کہانی کا سب سے اہم پہلو تھا۔

سوشانت

کبھی محبت میں ناکامی اور کبھی دھوکا دہی کے باتیں ہوئیں لیکن ان سب میں ڈپریشن کی کہانی غائب تھی اور شاید یہی اس خود کشی کی افسوسناک کہانی کا سب سے اہم پہلو تھا

سشانت سنگھ کا تعلق بہار سے تھا، ایک ایسی جگہ جہاں چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں خواب سجائے جاتے ہیں۔ انجینیئر، ڈاکٹر بننے کے اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے بعد گھر بسانے کے خواب۔

سشانت سنگھ راجپوت نے بھی ایسے ہی خوابوں کے تکمیل کے لیے انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے داخلے کا امتحان دیا تھا اور وہ ملک بھر میں ساتویں پوزیشن پر آئے تھا۔

اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے وہ مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اداکاری کے لیے انھوں نے انجینیئرنگ چھوڑ دی تھی۔

بالی وڈ کی دنیا ان کے لیے اور وہ اس دنیا کے لیے مکمل اجنبی تھے۔

انھوں نے اپنی پہلی فلم ’کائی پو چے‘ میں ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا جو کرکٹ کا دیوانہ ہے اور وہ ایک نوجوان مسلمان لڑکے کی کوچنگ کرتا ہے تاکہ وہ آگے کھیل سکے۔

ان میں ایک چھوٹے شہر کے لڑکے کی جھلک ملتی ہے جو اپنی خواہشات اور جنون کے مابین ڈبکیاں لگاتا رہتا ہے۔ یہ والدین کی توقعات اور آزادی کے درمیان کشمکش کی کہانی ہے۔

تنہائی پسند سُشانت

سُشانت سنگھ بہار کے پورنیا ضلع کے ملڈیہا میں سنہ 1986 میں پیدا ہوئے تھے۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور اکلوتے بھائی تھے۔

اپنی والدہ کے بہت قریب اور خاموش طبع انسان تھے۔ سنہ 2003 میں والدہ کی موت نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ ہمیشہ تنہائی پسند رہے۔

سُشانت کے کنبہ کی قریبی رنجیتہ اوجھا نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ وہ ہنسراج سکول میں داخلے کے لیے دلی کے مکھرجی نگر میں اپنی بہن کے ساتھ رہنے آئے تھے اور پھر دلی کالج آف انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ سُشانت ہمیشہ مسکراتے رہتے اور ہمیشہ پارک میں تنہا گھومتے یا پھر اپنے کمرے میں پڑھنے کی میز پر اکیلے گم رہتے۔

ایک کیریئر پروان چڑھا

سشانت نے بیری جان کے ایکٹنگ سکول میں اداکاری بھی سیکھی۔ بعد میں وہ نادرا ببر کے ’ایک جٹ تھیئٹر‘ میں بھی شامل ہو گئے۔ جب سشانت کالج میں تھے تو انھوں نے اپنی بڑی بہن کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ وہ رقص کرنا چاہتے ہیں۔

سشانت کے ایک خاندانی دوست نے بتایا کہ اس دوران ان کی بہن نے ان کی مدد کی تھی۔ بڑی بہن نے اپنے والد کو یہ نہیں بتایا کہ سشانت ڈانس کے لیے ممبئی گئے ہیں بلکہ یہ بتایا کہ وہ انٹرنشپ پر ممبئی میں ہیں۔

جلد ہی سشانت کو نوٹس کیا جانے لگا اور پھر ’کس دیس میں رہتا ہے میرے دل‘ سے ان کا ٹی وی کریئر شروع ہوا۔ پھر وہ ایکتا کپور کے سیریل ’پوتر رشتہ‘ میں مرکزی کردار میں نظر آئے۔

سنہ 2011 میں انھوں نے بالی وڈ پر نگاہ ڈالی جہاں فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے رنویر سنگھ، ورن دھون، رنبیر کپور جیسے ستارے موجود تھے۔ اگر آپ کا فلمی پس منظر ہے تو کیریئر کا دوسرا یا تیسرا موقع بھی مل جاتا ہے۔ لیکن فلمی دنیا سے باہر کے کسی شخص کے لیے صرف ایک ہی موقع ہوتا ہے۔

لیکن سشانت کی پہلی فلم کامیاب رہی۔ اس کے بعد منیش شرما کی سنہ 2013 کی ’شدھ دیسی رومانس‘ آئی۔ اس کے بعد سنہ 2014 میں انھوں نے راجکمار ہیرانی کی فلم پی کے میں سرفراز کا کردار ادا کیا جو انڈیا پاکستان دونوں جگہ مقبول ہوا۔

اس کے بعد سشانت کو یش راج فلم نے سائن کیا تھا اور انھیں دیباکر بینرجی کی ’جاسوس بایومکیش بخشی‘ فلم ملی۔

’سشانت کو ایک وبا نے مارا جس کا نام تنہائی ہے‘

وکاس چندر کی بوموکیش بخشی کے سیٹ پر سشانت سنگھ سے ملاقات ہوئی۔

وکاس کا کہنا ہے کہ ’جس اقربا پروری کی بات کی جارہی ہے اس نے سشانت کو نہیں مارا۔ اسے تو ایک وبا نے مارا جس کا نام تنہائی ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت تنہائی ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ تنہائی کیا کر سکتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ بطور خاص ایسے فرد کے ساتھ جو افسردگی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ کوئی ایسا شخص جو کسی نہ کسی شکل میں تنہا رہا ہو۔

’انڈسٹری میں اقربا پروری کے باوجود وہ سٹار بن گیا تھا۔ سشانت کو یہ بھی معلوم تھا کہ اسے سب کچھ مل گیا ہے لیکن وہ ایک مختلف شخص بھی تھا۔‘

چندرا بالی وڈ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’یہ ایک خاص فریم میں فٹ ایک دنیا ہے۔ یہاں کھوکھلا پن اور بے چینی ہے اور اس فریم میں خود کو فٹ ہونے کا دباؤ ہے۔

’یہاں کے نظام سے ذرا سا الگ ہوتے ہی قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ کے بارے میں طرح طرح کی چیزیں بنائی جانے لگتی ہیں۔‘

چندر کا کہنا ہے کہ اقربا پروری کی یہ کہانی دراصل ہندوستانی معاشرے کی کہانی ہے۔

’انڈیا بھروسہ نہ کرنے والوں کا ملک ہے۔ ہمیں کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ ہم اس طریقے سے تیار ہوئے ہیں۔ آخر ہمیں سفارشات کی ضرورت کیوں ہے۔ ہم سب اس ستم ظریفی کو سمجھتے ہیں۔

’دراصل ہم لوگ دوہری زندگی گزارنے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ بالی وڈ اس دوہرے پن میں جیتا ہے۔ یہاں لوگ خاندانی کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں مقابلہ بھی بہت زیادہ ہے۔ کارکردگی کا جائزہ صرف عوام ہی دیتی ہے۔‘

یہی وجہ ہے کہ معروف ہیرو ہیروئنز کے صرف ’چند بچے‘ ہی یہاں چلتے ہیں کیوں کہ یہاں ’سروائول آف دی فٹیسٹ‘ کا اصول کار فرما ہے۔

باہر والوں کو دگنی محنت کرنا پڑتی ہے

سوشانت

سنہ 2014 میں انھوں نے راجکمار ہیرانی کی فلم پی کے میں سرفراز کا کردار ادا کیا جو انڈیا پاکستان دونوں جگہ مقبول ہوا

چندرا بتاتے ہیں کہ ’سشانت کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ وہ باہری شخص ہے۔ وہ نیٹ ورکنگ اور پی آر جیسی چیزوں سے نفرت کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ یہ چیزیں پسند نہیں کرتے لیکن اگر آپ یہ سب کام نہیں کرتے ہیں تو آپ کو اس کے بغیر فائدہ بھی نہیں ہو گا۔

’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود انھیں جہاں پہنچنا تھا وہ پہنچ گئے۔ ان کا نام نئی نسل کے ستاروں میں بھی شامل تھا۔‘

جب کرنی سینا جیسی تنظیموں نے کہا کہ فلم پدماوت راجپوت کلچر کی توہین کرتی ہے اس لیے اسے ریلیز نہیں ہونے دینا چاہیے تو سشانت نے کہا کہ وہ اپنے نام سے راجپوت لفظ ہٹا رہے ہیں جن کے نام پر اس طرح کے تنازعات پیدا کیے جا رہے ہیں۔

دیباکر بنرجی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بالی وڈ سے باہر والے لوگوں کو یہاں آباد ہونے کے لیے دگنی اور سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔

سشانت خاندانی ہونے کے باوجود کامیاب رہا

جو لوگ سشانت کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک مختلف قسم کا آدمی تھا۔ نام نہاد بیرونی لوگ بالی وڈ میں اقربا پروری کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔

انھوں نے ان کے بیچ کام کیا ہے ان کے ساتھ لڑائی کی ہے اور ان کے ساتھ تال میل بھی بنایا ہے۔

سوشل میڈیا پر جو شواہد پیش کیے جارہے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ سشانت کو کنارے لگایا گیا، ان کا مذاق اڑایا گیا اور انھیں تکلیف اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ پتا نہیں یہ سچ ہے یا نہیں۔

تاہم ان کے پاس جو پروجیکٹس موجود تھے اور ان کی فلموں نے جو کامیابی باکس آفس پر حاصل کی اس سے ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے کسی کرن جوہر کی ضرورت نہیں تھی۔

انڈسٹری میں خاندانی تسلط کے باوجود سوشانت نے کامیابی حاصل کی تھی۔ شاہ رخ اور عرفان کے علاوہ ایسی بہت کم مثالیں ہیں کہ ایک اداکار ٹی وی سیریئل سے شروع ہوتا ہے اور سٹار بن جاتا ہے لیکن سشانت یہاں تک پہنچے اور ’انھوں نے بالی وڈ میں اپنی اننگز اچھی کھیلی۔‘

سشانت کی کامیابیوں پر تناظر

سشانت نواز الدین صدیقی کو پسند کرتے تھے لیکن انھیں نوازالدین کی طرح جدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ انھیں اس شبیہ کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا جسے غریب آدمی کے کردار کے لیے مستقل طور پر فٹ سمجھا جاتا تھا۔

بہت سال قبل نوازالدین نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا: ’مجھے اپنی جدوجہد پر غصہ آتا تھا۔ مجھے ہر چیز پر غصہ آنے لگا تھا۔ ایک وقت تھا جب کسی نے انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔

’جب انھوں نے کہا کہ انھیں مرکزی کردار کی ضرورت ہے تو ان کے دوستوں نے انھیں یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیتے کہ ’تم ہیرو مٹیریل نہیں ہو‘۔‘

اس انٹرویو کے دوران انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں ایک دن بالی وڈ کے سب سے زیادہ فیس لینے والے اداکاروں میں سے ایک بننا چاہتا ہوں۔‘ بالی وڈ میں ایک ریس جاری ہے۔

کچھ انیل کپور کے بیٹے ہرشوردھن کپور کی طرح اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے لیکن نواز الدین جیسے لوگوں نے جدوجہد کرکے اپنی جگہ بنائی۔ سشانت سنگھ راجپوت نے بھی اس جدوجہد سے اپنی جگہ بنالی تھی۔

سوشانت

خوش مزاج مسکراہٹ رکھنے والے سوشانت سنگھ راجپوت اجنبیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بعد میں وہ اپنے ماضی کے ساتھ رہنے لگے

خودکشی کرنے والے شخص کے ذہن میں کیا ہوتا ہے

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق سنہ 2018 میں ملک میں خودکشی کے ایک لاکھ 34 ہزار 516 واقعات پیش آئے۔

ڈاکٹروں کی نظر سے دیکھیں تو خودکشی ایک مبہم سا مضمون ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان لکھاریوں کی زندگیوں کو دیکھنا ہوگا جو بائی پولر ڈس آرڈر اور افسردگی کا شکار ہوچکے ہیں۔

یہ سمجھنے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ خودکشی کرنے والے شخص کے ذہن میں کیا ہوتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ جو لوگ افسردگی کا شکار ہیں وہ درد کا سامنا کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی دوا نہیں ہے، انھیں درد سے درد تک کا سفر جاری رکھنا ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ جو شخص افسردگی کا شکار ہے اسے ’واکنگ وونڈڈ‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسا فوجی جو جنگ میں زخمی ہوا ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔

خوش مزاج مسکراہٹ رکھنے والے سوشانت سنگھ راجپوت اجنبیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بعد میں وہ اپنے ماضی کے ساتھ رہنے لگے۔

ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ہم سشانت کی شاعری کے ٹکڑے میں ان کی شناخت پا سکتے ہیں۔ ان ٹکڑوں کو ہم جوڑ کر ان کی شناخت کر سکتے ہیں۔ اس شخص کو جس نے آسمان میں ہر ممکن حد تک چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑنے کی کوشش کی تھی۔

سشانت سفر کرتے رہے لیکن انھوں نے اپنی سرزمین نہیں چھوڑی۔ تین جون کو انھوں نے اپنی ماں کی تصویر پوسٹ کی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا: ’آنسوؤں سے دھندھلی ہوتی آنکھوں سے ماں کی اس تصویر کو دیکھا۔‘

ہر زندگی کا ایک فل سٹاپ ہوتا ہے لیکن کئی بار سفر لامتناہی ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سفر مزید جاری رہے گا۔ اس شخص کی کہانی جس نے ستاروں اور سیاروں کو دیکھا وہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp