سدا نہ باغ میں بلبل بولے


بنی نوع انساں میں پیدائش کے جھولے سے موت کا جھولا جھولنے تک بہت سے مراحل آتے ہیں اور ہر مرحلہ اپنے اپنے نشیب و فراز بھی ساتھ لاتا ہے۔ کچھ واقعات سے گزرنے کے لئے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں پڑتی اور کچھ واقعات کو ہم اپنے ہم جنسوں کے تعاون سے گزار لیتے ہیں۔ محض چند ایک ہی معاملات ایسے ہیں جہاں زیادہ پس و پیش چلتی نہیں۔ یہ معاملات انسانی زندگی کے لئے نا صرف ناگزیر ہیں بلکہ یوں کہئے کہ ان کے ساتھ چاروناچار چلنا ہی پڑتا ہے۔

حضرت آدم اشرف المخلوقات جیسی مسند پہ ہی فائز رہتا لیکن پیٹ کا لپکا ایسا ساتھ لگا ملا ہے کہ اس کا دوزخ بھرنے کے لئے کوئی نہ کوئی حیلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ حلال حرام کی احتیاط نے اسے اور بھی دوبھر کر دیا ہے۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے یہ تو طے ہے کہ کچھ ہمت کرنی پڑے گی کہ رزق کا کوئی معقول اور قابل قبول وسیلہ مل جائے۔ تو چوتھائی زندگی ختم کر کے اگر ایسا وسیلہ میسر نہیں ہو پارہا تو پھر اپنی ترجیحات کو از سرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 12 سالہ تعلیمی زندگی کے فوری بعد کاروبار مرتب کرنے کی طرف توجہ دینا اور اس کی کمائی میں سے اپنی صلاحیتیں نکھارنے کی طرف جانا زیادہ بہتر آپشن ہے۔

زندگی میں معاشرتی اور سماجی رویے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نوجوانی کے بنائے ہوئے دوست ہی زیادہ تر وفادار اور قابل بھروسا ثابت ہوتے ہیں۔ دوست بنانے کے لئے جہاں بہت سے اصول وضع کیے گئے ہیں وہیں دو باتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں : اول یہ کہ دوست بناتے وقت خیال رکھئیے کہ آپ اپنے جنازے کی پہلی صف کا انتخاب کر رہے ہیں۔ دوم یہ کہ دوست صرف آپ کا دوست ہی نہیں رہے گا وہ اس معاشرے میں آپ کا تعارف بن جائے گا۔ اگر یہ باتیں ذہن میں رکھ کر دوست بنائیں تو امید ہے کہ اچھا دوست ملے نہ ملے ’کم از کم دھوکہ نہیں ملے گا۔

زندگی کا اصل رنگ اورنکھرا روپ گھرداری ہی کے مرہون منت ہے۔ جوانی کی شتابی اور جسمانی طاقت کے نشے تک تو ہر کوئی ہاتھی سے بھڑ جانے کو تیار رہتا ہے لیکن گزرتا وقت ایسی مہارت سے میم میخ خراب کرتا ہے کہ پھراکلاپے میں ایڑیاں رگڑتے ہی بنتی ہے۔ جب جوڑا بنانا ہی ہے تو گھر کا سکون اور خود کا آرام اس سے مقدم اور کچھ نہیں ہونا چاہیے ورنہ عبرت کے لئے کبھی عائلی عدالتوں کا چکر لگا کر دیکھ لیں کہ کیسے کیسے پری زاد کیسے کیسے رل گئے ’کیونکہ:

غصے کرکرگھروں پجا لی ’منتاں کرکر موڑی
قابو کرنی مشکل ہوندی ’بناں لگاموں گھوڑی
فقط پیار ’محبت‘ عفوودرگزر ہی سے دونوں پہئیے بہترین چل سکتے ہیں۔

زندگی کے آخری حصے میں جب دستیاب طاقت اور دستیاب وقت اور پیسے میں باہم کوئی میل نہیں رہتا۔ اس مرحلے تک آنے سے پہلے خود کی طاقت کو بحال رکھنا اور صحتمند رہنا بھی عین آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ جیسے فی زمانہ اس وبائی دور میں انسانی زندگی انتہائی بے وقعت ہو چکی ہے۔ سرکار کے لئے آپ کے جانے سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ انہیں ایک ہندسہ بڑھانا پڑے گا لیکن سوچئیے کہ اپنے گھر والوں کے لئے ’اپنے سے منسلک لوگوں کے لئے آپ ان کی پوری دنیا ہیں۔ کسی کی ہنستی بستی دنیا یوں اچانک اجاڑنے کا حق آپ کو کسی نے نہیں دیا۔ اپنا اور اپنے سے وابستہ لوگوں کا خیال رکھیئے۔

جو آیا ہے اس نے جانا ہے ’جیسے آنے والے کو آنے کی خبر نہیں ایسے ہی جانے والوں کو بھی جانے کا پتا نہیں چلتا۔ کچھ ہم سے پہلے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور کچھ ہمارے بعد وہاں پہنچیں گے‘ کوشش کریں کہ اپنے عمل سے ’اپنے کردار سے اور اپنی خیر سے دوسروں کے لئے کچھ آسانیاں پیدا کر سکیں کہ جب کسی کو چلے جانے کی اطلاع ملے تو وہ اچھے الفاظ میں یاد کرے اور تمت بالخیر اس سے بہتر کیا ہوگا کہ یاد کرنے والا جانے والے کے حق میں ایصال ثواب کی نیت ہی سے کچھ بخش دے اور یہ تب ممکن ہے جب ہم خود دوسرں کے لئے بخشش کا ساماں کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments