وزیراعظم نے بالآخر کیا بڑا فیصلہ کر لیا؟


وزیراعظم عمران خان نے اس سال کے آخر تک اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم اپنے وزراء کو خبردار کر دیا ہے کہ ان کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے محض چند ماہ کا وقت ہے۔

ذرائع کے مطابق ”کپتان“ نے اپنی ٹیم کے ارکان، بالخصوص وفاقی کابینہ میں اپنے قریبی رفقاء کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جس نعرے کی بنیاد پر اقتدار میں آنے تھے نہ اسے پورا کر پائے ہیں نہ ”نیا پاکستان“ کے حوالے سے ہماری حکومت کچھ ڈلیور کر سکی، مجھے خواہ مخواہ اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی شوق نہیں۔ آپ لوگوں کے پاس 3 سے 6 ماہ کا وقت ہے، اس دوران کچھ پرفارم کر سکتے ہیں تو کر لیں اس عرصے میں بھی ہم کچھ ڈلیور نہ کرپائے تو میں خود حکومت چھوڑ دوں گا ”

ذرائع کے مطابق وزیراعظم اپنی ٹیم کی کارکردگی سے سخت مایوس اور دل برداشتہ ہیں جس کے ارکان، بالخصوص براہ راست منتخب وزراء نے حکومت کے 2 سالہ دور میں نہ تو اپنی اپنی وزارت میں کوئی کارکردگی دکھائی اور نہ پارٹی سطح پر خدمات انجام دیں، ”کپتان“ کا کہنا ہے ہم ملکی سیاست میں تیسری قوت کے طور پر اور ”تبدیلی“ کے نعرے کے ساتھ سامنے آئے تھے لیکن حکومت ملنے کے باوجود نہ پارٹی مضبوط کرسکے اور نہ گورننس کے حوالے سے پرفارم کر پائے ہیں، پارٹی رہنماؤں نے بجائے اس کے کہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تنظیمی سطح پر کچھ بہتری لاتے اور اس عرصے میں پارٹی کو مزید فعال کرتے، آپسی لڑائی جھگڑوں سے اسے کمزور کیا ہے۔ ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ اتنی بھاری کابینہ اور اتنی بڑی حکومتی ٹیم حکومت کے ڈلیور کرنے میں مددگار ثابت ہونے کی بجائے الٹا ان کے لئے ایک تہمت بن کے رہ گئی ہے، ان کے رفقاء کی مایوس کن پرفارمنس سے نہ آج عوام مطمئن ہیں نہ پارٹی کارکن خوش ہیں ”آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے حلقوں میں جائیں، وہاں ترقیاتی بجٹ لگائیں، کارکنوں اور ووٹروں سے رابطہ رکھیں۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم موجود کرائسس کی صورتحال میں اپنی اپنی constituency میں لوگوں کو کرونا بارے آگاہی دیتے، لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ان کی مدد اور رہنمائی کرتے“

دوسری طرف سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری اب پاکستان تحریک انصاف سے بھی پرواز کرجانے کے لئے پر تول رہے اور اپنے حالیہ انٹرویو کے ذریعے ایک نیا سیاسی تنازعہ کھڑا کر کے دراصل خود کو پی ٹی آئی سے نکال دیے جانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں تاکہ وہ بے لاگ انداز میں پی ٹی آئی کی سیاسی سچائیاں سامنے لانے کے جرم کا سزاوار قرار پا کر اپنے حلقے میں ہیرو بن سکیں۔ مبصرین کا کہنا ہے ”ویسے بھی کسی پارٹی کے ساتھ ان کے سفر کا عرصہ دو ڈھائی سال ہی ہوتا ہے“ بعض ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے ممکن ہے آنے والے دنوں میں وہ اپنے آبائی حلقے سے تعلق رکھنے والے اپنے انتہائی قریبی دوست ”نون“ لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے ساتھ در پردہ تعاون سے بزدار حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں بھرپور عملی تعاون اور ”خدمات“ بھی پیش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments