جیت گئی ملالہ یوسف زئی



جنگ کسی بھی شکل میں ہو، بھوک، افلاس، بد امنی، انتشار، تشدد لاتی ہے۔ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم کرتی ہے۔ اور غاصب گروپ جس علاقے پر اپنا قبضہ جماتے ہیں وہاں زندگی کو اپنے قانون اور اپنے خودساختہ طے کردہ اصولوں کے طابع کرنا چاہتے ہیں۔ قطع نظر کہ ان کے اصول مہذب معاشرے میں قابل قبول ہیں یا نہیں۔ ان کے قانون میں انصاف کا پہلو ہے یا انسانیت کی تذلیل کا۔ ان کی سوچ میں امن اور فلاح ہے یا تشدد اور پسماندگی۔ غاصب کے اپنے اصول اور اپنے معیار ہوتے ہیں اور وہ مفتوح علاقے کو ان کے طابع کرنا چاہتا ہے۔

وار آن ٹیرر کے نام پر پاکستان ایک دہائی سے زیادہ عرصہ دہشتگردی کا مقابلہ کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان نے معاشی تباہی کے ساتھ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر، سینکڑوں سکالرز، پروفیسرز، اور ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کا نقصان بھی برداشت کیا ہے۔

یہ امریکی محاذ طالبان کے خلاف تھا جو پاکستان کے خوبصورت علاقوں میں اپنی بدصورت وارداتوں سے اسلام جیسے پرامن مذہب کے نام پر دہشتگردی پھیلا رہے تھے۔ اسلام کے امن کے بنیادی فلسفے سے نا واقف گروہ اپنی خودساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتا تھا جس کا دور دور تک اسلام جیسے خوبصورت اور مہذب مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حجاموں کو بال اور داڑھی کاٹنے سے منع کر رہے تھے۔ عورتوں کو سر عام مجمے میں کوڑے مارنے کے واقعات دیکھ کر دنیا حیران تھی۔ یہ دہشتگرد مختلف علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کر کہ اپنے اصول نافذ کرنا چاہ رہے تھے۔

ایسے ہی ان کے عتاب میں آیا خوبصورت سوات، جو خوبصورتی اور دلفریب مناظر میں اپنی مثال آپ ہے۔ جس کے لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ، بہتی ندیاں، لہلاتے پیڑ پودے، ماحول میں تازگی، اور خوبصورت منگورہ بازار کے ساتھ کئی ایسی چیزیں ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں اور ہر سال بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح اس خوبصورت وادی کا رخ کرتے ہیں۔

طالبان کا سوات میں کنٹرول کے بعد شہر میں کچھ بھی پہلے جیسے نا رہا، سوات کی فضا سوگوار، لوگوں میں خوف اور دلکش مناظر سیاحوں کی یاد میں اپنی تازگی جیسے بھول بیٹھے۔ بم، بارودی گولے، گولیوں کی آواز اور شریعت کے نام پر تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی چیخ و پکار نے وادی سوات کی ساری خوبصورتی چھین لی۔ اب اس شہر کی طرف جانا تو درکنار لوگ نام سن کر خوف کھاتے تھے۔ کیونکہ وحشت، درندگی، حیوانیات، اور قتل و غارت اس شہر کی وجہ شہرت تھی۔

پاکستان کی سرزمین پہ بہادر بیٹیاں پیدا ہوئیں ہیں اور ایسی ہی ایک بہادر بیٹی نے اس حیوانیت کے خلاف مزاحمت کرنے کی ٹھانی اور بم، گولے اور بندوقیں رکھنے والوں کے نظریہ سے ٹکرا گئی۔ اس کا مقصد صرف حصول تعلیم تھا۔ وہ سکول جانا چاہتی تھی اور علم کی روشنی سے اپنی اور اپنے لوگوں کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھتی تھی۔

دنیا آج اسے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزائی کے نام سے جانتی ہے۔ جس نے اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہوکر کئی ایسی باتیں کیں جس نے دنیا کو اسے شاباش دینے پر مجبور کیا۔ اس نے کہا کہ گولیاں ہمیں خاموش نہیں کرا سکتیں، جب ساری دنیا خاموش ہو تو ایک مزاحمت کرتی آواز بھی طاقتور ہوتی ہے، اگر ایک دہشتگرد سب کچھ برباد کر سکتا ہے تو ایک لڑکی سب بدل سکتی ہے، بندوق سے آپ دہشتگرد مار سکتے ہیں جبکہ تعلیم سے آپ دہشتگردی کا خاتمہ کرتے ہیں، عالمی امن صرف تعلیم سے حاصل کیا جا سکتا ہے، تعلیم انسان کو دہشتگردی کا مقابلہ کرنا سیکھاتی ہے، ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا بدل سکتے ہیں۔

جب اس انقلابی شخصیت کی مالک کم سن ملالہ کو دنیا خاموشی سے سن رہی تھی اور حیران تھی کہ ایک بچی کیسے اس قدر بہادر ہو سکتی ہے؟ تو اس لڑکی کہ اپنے ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف پراپیگینڈا کرنے میں مصروف تھی۔ نہتی ملالہ اس خاص طبقے کے مطابق ایجنٹ اور قومی سلامتی کہ لیے خطرہ تھی۔ یہ وہی طبقہ تھا جو سمجھتا تھا کہ طالبان اسلام کے داعی ہیں۔ اور وہ جو کر رہے ہیں عین شریعیت کے مطابق ہے۔

باوجود بڑی تعداد میں مخالفین کے پراپیگینڈا کے ملالہ کی بہادری اور لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے پیغام کو دنیا نے سمجھا اور مختلف ایوارڈز سے نوازا جو دنیا کی بڑی شخصیات کو ان کی قابلیت اور معاشروں کو بہتر بنانے کی جدوجہد پہ نوازے جاتے ہیں

آج طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ دنیا نے ان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا دوسری طرف حال ہی میں ملالہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوگئی ہے اور بہتر مستقبل اس کا انتظار کر رہا ہے۔ ملالہ ہر روز روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے اور اس کے مخالفین کی زبانیں بند اور پراپیگینڈا دم توڑ چکا ہے۔ سوات میں امن آ چکا ہے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ پاکستان کی بہادر بیٹی ملالہ جیت گئی ہے اور تعلیم دشمن دہشتگردوں کو شکست فاش ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments