تعلیم یافتہ افرادی قوت کا برین ڈرین ہمیں مزید پسماندہ کر رہا ہے



کسی بھی ملک میں قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ انسانی وسائل میں نوجوان سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس وقت اکثر ممالک میں نوجوانوں کا آبادی میں تناسب بزرگوں اور بچوں سے زیادہ ہے۔

ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے نوجوان طبقہ کی اس طرح تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ کرے کے وہ نا صرف انہیں بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں کارآمد ثابت ہو بلکہ اپنی خدمات سے ملکی ذرائع آمدن میں بھی اضافہ کر سکیں۔ اس لیے حکومتیں ہر سال بجٹ میں تعلیم اور پروفیشنل و ٹیکنیکل ٹریننگ کے لیے اربوں روپے مختص بھی کرتی ہیں۔ لیکن ان مختص رقومات کا بڑا حصہ یا تو کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے یا خسارہ کم کرنے کے لیے دیگر شعبہ جات پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔

تھرڈ ورلڈ یا پسماندہ ممالک میں آبادی ترقی یافتہ ملکوں سے ناصرف زیادہ ہے بلکہ آبادی بڑھنے کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے بہت سارے عوامل ہیں جو یہاں موضوع بحث نہیں ہیں۔ پسماندہ ممالک میں انسانی ذرائع وسائل انتہائی اہم ہیں۔ اور ان کی تعلیم و تربیت کے بعد انہیں پیداواری کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پسماندہ ممالک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مبنی ہے۔ اور ان ممالک کے دیگر معاشی، سیاسی، سماجی و مذہبی مسائل کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں کو انسانی ذرائع وسائل بنانا بھی بڑا چیلینج ہے۔

ان ملکوں میں کرپشن، بدانتظامی، رشوت، خویش نوازی، اور حکومتوں کی طرف سے بہتر معیار زندگی فراہم نا کرنے پر اکثر نوجوان آبادی ترقی یافتہ ملکوں میں نوکری اور رہائش اختیار کرنے کے خواب دیکھتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کی تعلیم یا پروفیشنل اور ٹیکنیکل صلاحیتیں کتنی ہیں۔

اقوام متحدہ کے سوشل اینڈ اکنامک افئیرز ڈیپارٹمنٹ کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 8.8 ملین اورسیز پاکستانی ہیں جن میں 4.7 ملین مشرق وسطی میں موجود ہیں۔ پاکستان اپنے اورسیز شہریوں کی بیرون ملک نوکری اور رہائش کی وجہ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔

اقوام متحدہ کے اسی محکمے کے مطابق اورسیز انڈین کی تعداد 28 ملین، بنگلہ دیشی اورسیز 7.5 ملین، اور اسی طرح دیگر پسماندہ ملکوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر میں موجود ہے۔ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی اورسیز آبادی کا ایک بڑا حصہ عرب ملکوں میں مزدوری کی غرض سے موجود ہے۔ جبکہ ان ملکوں کا تعلیم یافتہ طبقہ یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کا رخ کرتا ہے جسے برین ڈرین کہا جاتا ہے۔

مزدور طبقہ کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان ملکوں کو اصل نقصان برین ڈرین کی صورت میں ہورہا ہے۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1971 سے 2010 تک کل اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد 53 لاکھ تھی۔ جبکہ 2010 سے 2020 تک یہ کل تعداد ایک کروڑ بارہ لاکھ سے زیادہ ہوگئی۔

2019 سے مئی 2020 تک کل 8 لاکھ لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے۔ ان میں تقریباٙٙ نصف تعداد اعلی تعلیم یافتہ یا اپنے کام میں مہارت رکھنے والے نوجوانوں کی ہے جن میں زیادہ تر انجینئرز اور دیگر شعبہ جات میں پروفیشنلز ہیں۔ 2019 سے مئی 2020 تک کل 3 لاکھ 99 ہزار 62 اعلی تعلیم یافتہ اور پروفیشبلز روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے۔

پاکستان کی طرح دیگر پسماندہ ملکوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بہتر زندگی اور بہتر روزگار کے مواقعوں کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ دیتی ہے۔ یہ پسماندہ ملکوں کے لیے برین ڈرین کی صورت میں ایک بڑا نقصان اور ترقی یافتہ ملکوں کے لیے برین گین کی صورت فائدے کا باعث بنتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک آجر کم سے کم لاگت میں زیادہ پیداوار کر کہ منافع کمانا چاہتا ہے۔ اور لاگت کم کرنے کے لیے اسے باصلاحیت مگر سستی لیبر فورس چاہیے ہوتی ہے جو اسے پسماندہ ملکوں سے ہوئے برین ڈرین کی صورت با آسانی میسر آجاتی ہے۔

پسماندہ ملک اپنا انتظامی، بینکاری اور دیگر نظام چلانے کے لیے باہر سے پروفیشنلز منگواتے ہیں اور ان کی خدمات کے عوض اپنے خزانوں سے زرمبادلہ کی شکل میں بھاری رقومات کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ یہی کام وہ اپنی تعلیم یافتہ لیبر فورس کو ماہرین سے تربیت دلا کر بھی کر سکتے ہیں مگر پالیسی کے فقدان، سیاست اور ویژن کی کمی انہیں اس طرف نہیں سوچنے دیتی۔ اور اس طرح وہ ایک ایسے دائروی بہاؤ میں پھنسے رہتے ہیں جس سے باہر نکلنا نامکمن ہوجاتا ہے۔

پسماندہ ملک صرف اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ کر کہ انہیں نا صرف خود مختیار بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کے برین ڈرین کو برین گین میں تبدیل کر کہ کئی خساروں سے بچ سکتے ہیں اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مزید نکھار کر پیداواری کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انڈین حکومت نے اس سلسلے میں کام کر کے اپنے آئی ٹی کے شعبے کو بہتر کیا ہے اور نوجوان اپنے ملک میں بیٹھے ہوئے فری لانسنگ کے ذریعے دنیا بھر سے پیسہ کما کر اپنے ملک میں ہی خرچ کر رہے ہیں۔ مگر یہ ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے۔

پسماندہ ملکوں کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے بہت بڑے اور ٹھوس اقدامات کرنا پڑیں گے۔ ورنہ ان ملکوں کے نوجوانوں کی صلاحیتیں ترقی یافتہ ملکوں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں سستی اجرت پر حاصل کریں گی اور انہی صلاحیتوں سے بنی پراڈکٹس غریب ملکوں کو مہنگے داموں بیچتی رہیں گی اور یہ غربت کے دائروی بہاؤ سے کبھی نکل نہیں پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments