مورخین جو بتا گئے، کیا وہی سچ ہے؟


ڈاکٹر رام پنیانی بائیومیڈیکل انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن برصغیر کی تاریخ پہ ان کی تحقیق اپنے آپ میں ایک سند ہے۔ بہت سے ایسے واقعات جو ہم تاریخ کی مروجہ کتب سے نہیں جان پاتے وہ ان کے ویڈیو لیکچرز کے ذریعے جانے جا سکتے ہیں۔ اس وقت کے حالات کا پس منظر، لوگوں کا رد عمل اور بعد میں آنے والی نسل کا نظریات استوار کرنا، یہ سب اپنے لحاظ سے کھوجنے لائق ہے۔ ۔

ویسے تو ان کے لیکچرز کافی طویل ہیں مگر ممکن حد تک انہیں تحریر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک فرد کی تحقیق ہے لہذا اختلاف اور تنقید کی گنجائیش موجود ہے۔ بنیادی طور پہ ان کا ہدف وہ کشمکش رہی ہے جو برصغیر میں طاقت کے مراکز کے درمیان تھی۔ اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں اور کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کے طاقتور لوگ آپس میں پہچان کے مدعا پہ لڑتے رہے ہیں۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہر معاشرے میں موزونیت کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ حالانکہ تاریخ کا اصل مطالعہ بذات خود غیر جانبداری کا متقاضی ہے۔ رام پنیانی کی تحقیقی کاوش میں غالب عنصر غیر جانبداری ہے۔ اس طرح یہ دیگر محقیقن کے کام سے کسی حد ایک مختلف نقطہ نظر کا حامل کام ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام کو ایک کڑی آزمائش یہ بھی رہی ہے کہ سومنات پہ حملے کی فتح کا جشن منانا ہے اور پھر یہ بھی بتانا ہے کہ ہمیں کسی دوسرے کی عبادت گاہ کا تقدس ہرگز پامال نہیں کرنا، اب بچہ کل کو بڑا ہو کے ان تضادات پہ سوال اٹھائے تو پھر اس کا منہ اساتذہ نے بند کرنا ہے، یا دیگر اصلاح کار اسے چپ کرا دیں گے۔

ہم دنیا کو سمیٹ کے جب برصغیر میں آتے ہیں تو ہم یہاں کے تین مذاہب سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب نے کس حد تک جنگی مہمات میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ تین مذاہب اسلام، ہندوازم اور عیسائیت کی تعلیمات ہمیں کیا درس دیتی ہیں۔ ہندوازم کا ماننا ہے کہ پوری زمین کے باسی ایک خاندان کی طرح ہیں۔ اسلام میں کہا گیا کہ اگر کسی کا پڑوسی بھوکا رہے تو اس پہ جنت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ عیسائیت میں بتایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے پیار کرو۔ اب لفظ پڑوس سے مراد گھر کے چاروں اطراف کے 70 سے اوپر گھر بلا تفریق مذہب و نسل آپ کے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی مذہب میں دہشت گردی اور جنگی جنون کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ ہر جنگ پہ مذہب کا لیبل لگا کے اس کے لیے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سب زیادہ تر 1857 کی جنگ کے زمانے کے بعد برصغیر میں جو تاریخ یا عہد تحریر ہوا، اس میں مذہب کا بے دریغ نام تاریخ کے صفحات پہ رقم کیا گیا۔ یہ مذہب کی ساکھ پہ بھی کاری ضرب تھی کہ اسے انسانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ میں دانستہ استعمال میں لایا گیا۔

برصغیر کی تاریخ جتنی بھی قتل و غارت ہوئی وہ زیادہ تر پہچان کے مدعا پہ ہوئی نہ کہ کسی بھی مذہبی تعلیم پہ ہوئی۔ ہاں البتہ مذہب کے ذریعے اکسایا گیا۔ جس سے لوگ لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوئے۔ اب چونکہ یہ سب پہچان کہیں نہ کہیں مندر، مسجد اور گرجا گھر سے جڑی ہے یا پھر تہوار سے اس کا تعلق ہے لہذا زیادہ تر انہی علامتوں کی بنیاد پہ مہم جوئی کی گئی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بابری مسجد کے بارے ایک دھرم گرو نے یہ کہا کہ یہاں بھگوان کا جنم ہوا، لہذا اگر میں نے اس مسجد کو نہیں گرایا تو میری رام بھگتی پوری نہیں ہو سکتی۔ اب اس کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ اس کے عمل سے ہندو مذہب کی خدمت ہوئی یا نفرت بڑھی ہے۔۔۔ تو غرض یہ ہے کہ سب توڑ پھوڑ اور مار کٹائی دراصل خود کو منوانے کے باعث ہوئی اور اپنی طاقت دکھانے کے لیے ہوئی۔ افغانستان میں بدھ مت کی مورتی کو توڑا گیا تو وہ بھی پہچان کی نفسیات سے جڑا واقعہ ہے۔

2013 میں ہمارے اپنے ملک میں عیسائی بستی کو آگ لگا دی گئی۔ اس کے چند ماہ بعد بھارت میں مسلمان گاؤں جلایا گیا۔ کچھ عرصے بعد بنگلہ دیش میں ہندو مار دیے گئے۔ یہ تینوں واقعات چند سالوں کے درمیان ایک ترتیب سے وقوع پذیر ہوئے۔

ان واقعات میں بے گناہ مارے گئے یا پھر سب گناہ گار مار دیے گئے۔ اگر وہ گناہ گار تھے تو گناہ کا فیصلہ ہر دھرم کا گرو ہی کر رہا ہے۔ جس کا بنیادی مسئلہ اس کی پہچان ہے اس سے مذہب کی بنیادی تعلیم کا تعلق نہ ہونے کے مترادف ہے۔

کسی دور میں یہ بھی مانا جاتا تھا کہ عورتوں کی عقل مرد سے کم ہوتی ہے، یہ سائنسی نہیں بلکہ سماجی سوچ تھی۔ مرد کی غالب شناخت کو ابدیت دینے کے لیے یہی سوچ رائج تھی۔ وقت نے سماجی بدلاؤ کیا اور یہ غلط ثابت ہوا۔ آج ہر بڑے امتحان میں لڑکیاں لڑکوں کو مات دے رہی ہیں۔ میٹرک کے امتحان سے لے کر یونیورسٹیز اور مقابلوں کے امتحانات تک یہی عالم ہے۔

مسلمان اگر گائے کا گوشت کھاتے ہیں، تو ہندو کے لیے گاؤ ماتا ہے، انہیں بڑی کوفت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے اگر وہی مسلمان پتا کھائے یعنی بیل کھائے تو ہندو کو کوئی مسئلہ نہیں۔ حالانکہ بیل تو پھر اس سے زیادہ اونچے مرتبے پہ فائز ہونا چاہیے۔

بیسویں صدی میں ہندوستان کی ہندو آبادی میں یہ درس دیا جاتا رہا کہ مسلمان جب ہندوستان میں آئے تو ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن تھا۔ اب یہ تصور جب راسخ ہوا تو مسلمان کے بارے ایک سپرمین کی طرح کہانی جوڑی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں کتاب۔ اس بات کو مان کے ایک نسل جوان ہوئی جو شدید مخالف جذبات کی حامل تھی۔

ہندوستان میں ایک طرف یہ خیال فروغ دیا گیا کہ جناب اورنگزیب بہت برا تھا کیونکہ اس نے کاشی میں وشو ناتھ کا مندر توڑا، سکھوں کو قتل کیا۔ گواہاٹی میں کاماکھیا دیوی کا مندر توڑا۔ اب یہ کوئی بتاتا کہ صاحبو! اورنگزیب نے مہاکال کے مندر کو محفوظ رکھنے کے لیے جو دھن لگایا اور کئی مندروں کی دیکھ بھال کے احکامات دیے، وہ کیا تھا۔ بھئی اقتدار کو طول دینا مقصد تھا۔

اس سب میں دلچسپ یہ ہے کہ اورنگزیب نے خود اپنی راج گیری میں ایک مسجد بھی گرائی۔ اب یہ سوال ہے کہ آخر مسلمان راجا کو کیا پڑی تھی کہ وہ اپنی ہی مسجد گرائے۔ تو کہانی کچھ یوں ہوئی گولکنڈ کے نواب ناناشاہ نے لگان نہیں دیا، لگ بھگ تین برس تک وہاں سے وصولی نہ ہوئی۔ اب نانا شاہ وہاں کا والی تھا مگر اورنگزیب مہا والی تھا۔ اس نے جب وجہ پوچھی تو ناناشاہ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں تین سال کا سوکھا پڑا ہے، کچھ کاشت ہی نہیں ہوا لگان کہاں سے دیں۔ ایسے میں مہاراجہ اورنگزیب نے اپنے ایک جاسوس کو بھیجا کہ جا کے پتہ لگاؤ کہ نواب کی دولت کہاں محفوظ کی گئی۔ تو معلوم ہوا کہ ساری دولت مسجد کے زیر زمین مخفی رکھی گئی تھی۔ یوں مسجد کو مہاراجہ کی فوج نے گرا کے وہاں سے دولت دریافت کر کے قبضے میں لے لی۔

راجا لوگ راج کیوں کرتے رہے؟ اگر تو کسی کو یہ وہم ہو جائے کہ وہ کسی بھی مذہب کی خدمت کرتے رہے تو ان کی رائے سے بصد احترام اختلاف کرنے کی بڑی وجوہات تاریخ میں بکھری پڑی ہیں۔

نانا صاحب جہاں سیکی بہادر شاہ ظفر ایک ساتھ انگریز سے لڑے۔ پھر ادھر سے 1857 کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ جس نے مذہب کے نام پہ انگریز سرکار کے راستے کو صاف شاہراہ بنادیا۔

ہندو راجاؤں نے خود اپنے ہی مندروں کو کئی بار توڑا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب اسلام کا ظہور بھی نہ ہوا تھا۔ ایک ہندو راجہ گزرے ہیں جن صاحب کا نام ہرش دیو تھا۔ اس نے اپنی راجنیتی میں ایک نیا عہدہ متعارف کرایا ”دیوت پتنگ نایک“ ۔ یعنی وہ جو بتوں کو گرائے۔ اس کا حکم تھا کہ وہ مورتی گراؤ کہ جس میں زیادہ نگینے اور ہیرے لگے ہوں، جبکہ پتھر کی مورتی رعایا کی پوجا کے لیے چھوڑ دیں۔ انتظار کریں کہ جب اس پہ نگینے لگ جائیں تو دیوت پتنگ نایک اسے بھی گرا دے۔

رچرڈایٹن نے تحریر کیا کہ پراچن کال میں اس وقت مندر توڑے گئے جب دو ہندو راجا آپس میں راج کے لیے لڑے۔ جیتنے والا یا طاقت ور راجا کمزور یا ہارنے والے کی عبادت گاہ یعنی اس کی پہچان کو مٹا کر لوگوں کو مرعوب اور مغلوب بناتا تھا۔ جس سے لوگ سہم کر اس کی سیوا کرنے لگ جاتے۔

مراٹھی سینائیں اور ٹیپو کی فوج جب شری رنگ پٹنم پہ لڑیں تو میچ ہار جیت کے بغیر ختم ہوا۔ واپسی پہ ہندوؤں نے یعنی مراٹھی سیناوں نے شری رنگ پٹنم کا مندر توڑا۔ جبکہ ٹیپو نے اس کی مرمت کرائی۔ اب جانیئے تو کہ ٹیپو کا کام اپنے مذہب کے لیے تھا یا مراٹھیوں کی حرکت ان کی دھرم سیوا تھی؟

اکبر کی اور رانا پرتاب کی جنگ میں اکبر کی طرف سے راجہ مان سنگھ تھا جبکہ رانا پرتاب کی طرف سے ناظم حکیم خان تھا۔ اب یہ لڑائی مذہب کی تھی یا راج کی؟ جواب صاف ہے کہ راج گیری کے لیے جنگ ہوتی رہی ہے۔

اب آئیے سومنات پہ تو عرض ہے کہ بت شکنی کی تاریخ کے بعد کسی تفصیل کی ضرورت نہیں مگر اس کا ذکر ضروری ہے کہ کیا ہندو دھرم کا خاتمہ کرنے غزنوی صاحب غزنا سے آئے، بہت سارے امیر علاقوں پہ تسلط قائم کیا۔ بھائی اسمعیل سے دو دو ہاتھ کیے اور اقتدار چھین لیا۔ اس سے اسلام کی خدمت ہوئی؟ غزنہ کے حوالے سے اکثر ہندو سمجھتے ہیں کہ مذہبی حملہ تھا۔ اگر ایسا تھا تو اس سے اسلام کی مقبولیت کو کیا فائدہ ہوا؟ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہاں 1510000000 مالیت کے ہیرے جواہرات پہ مشتمل حقیر سی دولت مندر میں مدفن تھی یہی وہاں کی خوبی تھی۔

جبکہ انگریزوں کے قبضے پہ جو شخص مزاحمت کرتا مارا گیا وہ واحد راجا ٹیپو تھا۔ باقی سارے تو آپس میں لڑتے رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ انگریز کی باری جتنی بھی مزاحمت ہوئی وہ کسی بڑے راجے نے نہیں کی۔ باہر سے بھی کوئی مدد کو نہ آیا۔ مقامی لوگ لڑتے رہے جتھوں کی شکل میں۔۔۔ نہ ہندوؤں کے دوست آئے اور نہ مسلمانوں کے۔ کیونکہ اس وقت انگریز کے پاس بندوقیں اور بارود تھا، توپیں تھیں۔ راجے بڑے سیانے تھے انہوں نے تلواریں دیواروں پہ لٹکا دیں یا پھر انگریزوں کو تیتر بٹیر مار کے کھلاتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔

ہر حکمران کا پایہ تخت دہلی تھا جبکہ کیرالہ میں پہلی مسجد بنی ہندوستان کی تاریخ میں یہ مسجد کسی جنگجو نے نہیں بنائی بلکہ وہاں عرب کے رئیس آتے تھے، چونکہ کاروباری منڈی تھی اور کاروبار کے لیے لین دین ہوتا تھا۔ ہندوستان کے باسیوں نے ان کے لیے مسجد بنائی تا کہ عرب سے تاجر بھائی خوشی خوشی آئیں اور مزید تعلقات استوار ہوں اور کاروبار چلے، اجناس کا تبادلہ ہو۔ ساتھ ہی کپڑوں کی سلائی کا فن بھی انہی کاروباری تعلقات کے نتیجے میں برصغیر میں پہنچا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صاحب! ہندوستان میں کوئی بھی مذہب کسی راجا یا مہاراجہ نے نہیں پھیلایا، نہ ہی کسی بھی جنگجو نے یہ کیا۔ ہندوستان میں 1900 سال سے عیسائیت ہے، ان کے پاس طاقت بھی تھی مگر آج بھی آبادی کا 2 سے 3 فیصد ہیں۔ اگر طاقت سے پھیلتا تو عیسائیت کے پاس نادر موقع تھا۔

700 سال تک مسلمان رہے اگر یہ کام راجا کا ہوتا تو آج پورے برصغیر میں کوئی اور مذہب نہ ہوتا۔ مذہب کا سہرا صوفی بزرگوں کے سر ہے چاہے کوئی اختلاف کرے۔ مگر سچ یہ ہے ان کی درگاہوں پہ شودر جاتے تھے کیونکہ وہ آبادی کا 80 فیصد تھے۔ انہیں مندر جانے کی ممانعت تھی۔ آخر انہوں نے ایشور سے بات تو کرنی تھی، اس طرح انہوں نے خانقاہ اور درگاہ کی راہ لی اور ان میں سے کافی بڑی تعداد نفرت اور محرومی کی ملی جلی آگ میں جلتی کڑھتی اپنا عقیدہ تبدیل کر گئی۔

آخر میں اس نقصان کا اندازہ لگائیے کہ جو اس تاریخ کے مسخ ہونے پہ ہوا۔ کہ ہمارے محروم طبقے کو آواز نہ ملی، ہمارے محکوم لوگ غلام بننے پہ اکتفا کرتے گئے۔ ہمارے کسان اور مزارع سب کے سب اپنے مسائل کے ساتھ جیتے مرتے رہے۔ کیونکہ شاید ہندوستان کے باسیوں کے پاس 1857 کی تاریخ نے اصل مسائل کو پس پشت ڈال کے مذہبی تفریق کے ناقابل حل مسئلے کو سلگا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments