ذہنی دباؤ سے آزاد معاشرہ


گاہے بگاہے زندگی میں ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ ذہنی یماریاں ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات یہ کسی وجہ سے ہوتی ہیں اور کبھی بغیر وجہ کے شروع ہو جاتی ہیں۔ عموماً ہم اس اداسی سے خود بھی چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں بعض دفعہ دوستوں سے بات کر کے یا علاج کے ذریعے۔ لیکن میڈیکل کے لحاظ سے یہ اداسی ذہنی دباؤ / ڈپریشن اس وقت کہلاتی ہے جب انسان کو اس اداسی کا احساس زیادہ عرصہ کے لیے ہو اور حب اس اداسی، بے چینی کی وجہ سے روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر ہونے لگا جائیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جنوری 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں ہر عمر کے 264 ملین سے زیادہ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

اس ذہنی بیماری کا شکار ہر عمر کے چھوٹے، بڑے، بچے، بوڑھے افراد ہو سکتے ہیں۔

نوجوانوں میں ڈپریشن کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً گھریلو مسائل٬ بے روزگاری٬ کسی عزیز کی موت٬ امتحان میں ناکامی٬ محبت میں ں شکست٬ بدسلوکی٬ پرانی بیماری اور بعض دفعہ انسان کسی پرانی باتوں کو سوچتا ہے اور حاوی کر لیتا ہے۔ یہ ڈپریشن مورثی بیماری بھی ہو سکتی ہے والدین سے بھی منتقل ہو سکتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس سے بچا کیسے جائے؟ کس طرح اپنے معاشرے کو ڈپریشن فری بنایا جائے؟

کیونکہ آج کل نوجوان زیادہ اس کا شکار ہو رہے ہیں اور آخر کار اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ اس لیے چاہیے کہ اپنی زندگی کا ایک معمول بنا لیں صبح جلدی اٹھیں نماز ادا کریں۔ پھر اپنے کام میں مشغول ہو جائیں۔ نفرت و حقارت سے پرہیز کریں محبت اور تعاون کے ساتھ سب کے ساتھ پیش آئے تا کہ ذہنی سکون حاصل ہو سکے۔ کیونکہ بعض اوقات کچھ چیزیں انسان کی توقعات پر پورا نیں اترتیں ایسے حالات میں جذبات پر قابو رکھیں۔

اگر امتحان میں ناکامی کا خدشہ ہے تو اس میں سٹریس لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہر چیز کو محنت سے زیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں والدین اور اپنے دوستوں سے رہنمائی لیں۔

اکثر نوجوان نوکری یا بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں ذہنی دباؤ اختیار کر لیتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں حلانکہ نا امیدی کفر ہے۔ اپنے آپ پے بروسہ رکھیں اور خدا پر توکل رکھیں۔

اور سب سے بڑھ کر جس کی وجہ سے لوگ ڈپریسن کا شکار ہوتے ہیں بالخصوص نوجوان طبقہ محبت اور عاشقی معشوقی ہے۔ یہ سب عارضی ہے۔ اصل محبت تو خدا تعالٰی کی ہے۔ دنیاوی محبت پریشانی اور اداسی کے سوا کچھ نہیں دیتی اس لیے ایسی چیزوں سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔ مانتا ہوں جب کوئی چھوڑ کر جاتا ہے دکھ ہوتا ہے لیکن جیسے پہلے بھی کہا یہ دنیاوی محبت کچھ نہیں ہوتی سوائے پاک رشتوں کے۔

اپنا رشتہ اللہ سے قائم کریں۔ اپنی پریشنیاں والدین سے شیئر کرے اور دوستوں کے ساتھ بات چیت کریں۔ جب بھی کوئی سٹریس والی صورت حال ہو اس سے راہ اختیار کرنی چاہیے اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے کس طرح ایسے حالات سے نکلاجائے۔ ہمیشہ خوش رہیں سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اچھے دوستوں کی صحبت میں رہیں اور پوزٹیو لوگوں سے میل جول رکھیں۔ ڈپریشن سے بچنے کے لیے اپنے ماحول کو تبدیل کر کے دیکھے۔ کیونکہ یہ ذہنی دباؤ انسانوں کو خاموشی سے مار دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments