پولیس اور عوام: کیا تبدیلی آئی؟



ریاست ہوگی ماں کے جیسی، یہ ہمیں 2007 میں جناب اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور بہت سے قد آور وکلاء نے بتایا تھا، عوام جوق در جوق باہر نکلے تاکہ ریاست کو ماں جیسا بنایا جا سکے، اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر افتخار چوہدری نے چوبیس گھنٹوں میں طٰے کیا، جس گاؤں شہر سے موصوف گزرتے عوام کا ایک جم غفیر استقبال کے لیے موجود ہوتا، اور پھر آخر کار محترم بحال ہوگئے، لیکن ریاست ویسی کی ویسی ہی رہی، ماں کے جیسی نہ بن سکی۔

اسی طرح غریب پر ظلم ہوتا رہا، اسی طرح انصاف کو ترسے ہوئے لوگ انصاف کی منڈیوں میں انصاف کے لیے دھکے کھاتے رہے اور انصاف حاصل کرنے کے لیے خون تھوکتے جیل کی تاریک کوٹھریوں میں مرتے رہے۔ ریاست ماں کے جیسے نہ تھی اور نہ بنی، کچھ بھی نہ بدلا، افتخار چوہدری کو بحال کروانا تھا، مشرف کو گھر بھیجنا تھا، عوام کے جذبات کو سبز باغ دکھا کر خوب برانگیختہ کیا گیا اور دھوکے فریب سے اپنا مقصد حاصل کر لیا گیا، ریاست کو ماں جیسی بنانا کبھی مقصد تھا ہی نہیں۔

‎پھر ایک اور موصوف آئے، میڈیا نے بڑی محنت سے کسی کی ہدایت پران کا مہا ایماندار ہونے کا امیج بنایا، انہوں نے ایمانداری کی ادائیں دکھا کر اور کچھ ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے بھولی بھالی عزت نفس کو ترسی ہوئی عوام کو ایک بار پھر لوٹنے کا منصوبہ بنایا، 2011 میں ان کی پارٹی کو لانچنگ پیڈ مہیا کر کے لانچ کر دیا گیا، مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پرایک منظم مہم کے ذریعے عوام کو یہ باور کروایا گیا کہ وہ اتنے ایماندار اور دیانتدار آدمی ہیں کہ اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، نتیجتاً خیبر پختونخوا میں محترم کو حکومت مل گئی، لیکن یہ ان کا پڑاؤ تھا منزل نہیں، منزل تو تھی وزیراعظم بننا، اور اس منزل کو پانے کے لیے خوب پراپیگنڈہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں موصوف نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں، پولیس کو اتنا ٹھیک کر دیا ہے کہ پولیس والوں کو دیکھتے ہی عوام میں تحفظ کا احساس جاگ اٹھتا ہے اور وہ فرط محبت سے ان کو گلے لگا لیتے ہیں، تعلیم کا نظام اتنا بہترین بنا دیا ہے کہ انگلینڈ اور امریکہ سے ماہرین اس نظام کو اسٹڈی کرنے کے لیے آرہے ہیں، یوں لگنے لگا تھا کہ کے پی کے زمین پر جنت کا ٹکڑا ہے اور بالکل بھی پاکستان نہیں لگتا۔

‎پھر اس ساری مہم کا فائدہ یہ ہوا کہ موصوف وزیر اعظم بن گئے، اور آتے ہی جھوٹ کے پول کھلنے شروع ہوگئے۔ پہلا جھوٹ تب کھلا جب ایک ریاستی ادارے نے دن دیہاڑے معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا، کسی من چلے نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی، غم و غصہ کا ایک طوفان اٹھا، موصوف اس وقت قطر میں تھے ٹویٹر پر چہکے کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا لیکن آج تک وہ عوام کا منہ چڑاتے دندناتے ہوئے پھر رہے ہیں، شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ عوام میں سے کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا، اور پھر عوام نے دیکھا کہ اسی طرح بندے غائب ہو رہے ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے، اسی طرح عوام کو ریاستی اداروں کے ذریعے سڑکوں پر مرغا بنا کر زدو کوب کیا جا رہا ہے ان کی تذلیل کی جارہی ہے، بیٹے کے سامنے بوڑھے باپ کو ذلیل کیا جار ہا ہے۔ غرض کہ پٹواری اور تھانہ کلچر اسی طرح قائم و دائم ہے، اسی طرح ان اداروں کے ذریعے عوام کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ پولیس تو نہیں بدلی جس کو بدلنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے ہاں اتنے قلیل عرصے میں پانچ آئی جی ضرور بدل گئے۔

‎خیبر پختونخوا کی پولیس کا بہت غلغلہ تھا کہ موصوف نے اسے دنیا کی بہترین پولیس بنا دیا ہے آج اس کا بھی پول کھل گیا، جب سے ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایک آدمی کو ننگا کر کے ذلیل کیا جا رہا ہے تب سے دل بوجھل ہے، طبیعت میں عجیب سی اداسی ہے، غصہ ہے، اتنی بے عزتی اتنی ذلت اور وہ بھی ریاستی ادارے کے ہاتھوں جو کہ ہمارے ٹیکسوں پر پلتا ہے، جن کی تنخواہیں ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ادا ہوتی ہیں جن کو ہم نے اپنی سہولت اور حفاظت کے لئے ذمہ دار بنارکھا ہے۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے تو پھر کیا کیا جائے۔

‎دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس ریاست کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دی تھیں، اس ریاست کے لیے بیٹیوں اور بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی تھی، اس ریاست کے لیے بہنوں نے اپنے بھائی اور ماؤں نے اپنے بیٹے کھوئے تھے، کیا ماں ایسی ہوتی ہے۔

‎اب کیا ہوگا تین چار دن میڈیا پر بین ہوں گے، رونا دھونا ہو گا، موصوف کا ٹویٹر چہکے گا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کچھ معطلیاں ہوں گی، اور پھرلوگ سب لچھ بھول بھال جائیں گے، کسی اگلے سانحے تک، پھر کوئی واقعہ ہوگا پھر شور و غلغلہ ہوگا، پھر ٹاک شوز ہوں گے اور پھر کسی اگلے واقعے تک خاموشی چھا جائے گی، اور یہ سرکل یوں ہی چلتا رہے گا، عوام اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے، اسی طرح ان کی عزت نفس کو کچلا جاتا رہے گا، اسی طرح ان کو سر بازار رسوا کیا جاتا رہے گا۔

‎یہ وہ ہی پولیس ہے جس کو کرنل کی بیوی سر عام برا بھلا کہتی ہے، ان پر چیختی چلاتی ہے اور تن فن کرتی رکاوٹیں ہٹاتی ان کے سامنے سے گاڑی نکال کر لے جاتی ہے، ان کی زبان بھی نہیں ہلتی، ان کی غیرت نہیں جاگتی، لیکن جب کوئی کمزور ویڈیو میں بھی ان کو برا بھلا کہہ دے تو ان کی غیرت بھی جاگ جاتی ہے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح ہو جاتی ہے اور پھر یہ اس کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں اور پھر اس کو سوشل میڈیا پر بھی نشر کر دیتے ہیں تاکہ دوسرے بھی عبرت پکڑیں اور عوام میں ان کا خوف اور دبدبہ قائم رہے اور غریب لوگ ان کو دیکھ کر تھر تھر کانپتے رہیں۔

‎ ستر سال ہوگئے، خون کے سمندر کو عبور کر کے یہ ملک حاصل کیا گیا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوگی، لیکن ریاست ماں کے جیسی نہ بن سکی بلکہ سوتیلی ماں جیسی بھی نہ بن سکی اتنے ظلم تو شاید سوتیلی ماں بھی نہیں کرتی، اتنا رسوا تو دشمن بھی نہیں کرتا۔

‎فیض نے کہا تھا
‎اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
‎کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے۔

‎اے لوگو کچھ تو بولو کیوں کہ آج ایک عامر ذلیل ہوا ہے اگر نہیں بولو گے تو کل کوئی اور عامر رسوا ہو گا، چپ رہو گے تو اسی طرح عامر ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے، آواز نہیں اٹھاؤگے تو یقین رکھو سب کی باری آئے گے کسی کی جلدی اور کسی کی دیر سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments