چین اور انڈیا کے سرحدی تنازع میں ’دنیا کی چھت‘ کہلائے جانے والے علاقے تبت کا کیا کردار ہے؟


لہاسا

چین اور انڈین فوج کے درمیان لداخ میں 15 جون کو ہونے والے تصادم سے قبل سنہ 2017 میں بھی دونوں جوہری طاقتوں کی مسلح افواج ڈوکلام کے علاقے میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئی تھیں۔

چین اور انڈیا کے درمیان تنازع مغرب میں لداخ سے لے مشرق کی طرف ڈوکلام، نتھولہ اور ریاست اروناچل پردیش کی وادی توانگ تک پھیلا ہوا ہے۔ چین ہمیشہ ہی اروناچل پردیش کے توانگ علاقے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔

چین توانگ کو تبت کا حصہ تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ توانگ اور تبت کے درمیان بہت زیادہ ثقافتی مماثلت پائی جاتی ہے۔ توانگ بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے بھی ایک مقدس درگاہ ہے۔

جب دلائی لامہ نے توانگ کی خانقاہ کا دورہ کیا تھا تو چین نے اس کی بھی مخالفت کی تھی۔

چینی صدر

یہ بھی پڑھیے

دلائی لامہ کی نجی زندگی کی ایک جھلک

کیا انڈیا نے تبت کے معاملے میں غلطی کی؟

لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

اس سال فروری میں جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا تب بھی چین نے اس دورے کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج درج کروایا تھا۔

چین تبت کے ساتھ اروناچل پردیش کا بھی دعوے دار ہے اور اسے جنوبی تبت کہتا ہے۔ اروناچل پردیش اور چین کی سرحد سینکڑوں کلومیٹر طویل ہے۔

چین نے 1951 میں تبت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، جبکہ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ 1938 میں برطانوی راج کے دوران کھینچی گئی ’میکمیہن لائن‘ سرحد کے مطابق اروناچل پردیش انڈیا کا حصہ ہے۔

تبت کی تاریخ

انڈیا کے شمال مشرق میں واقع اس دور دراز علاقے میں بدھ مذہب کے لوگوں کی اکثریت ہے اور اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ تبت کو چین میں ایک خود مختار حصے کی حیثیت حاصل ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ صدیوں سے اس خطے پر اس کی حکمرانی رہی ہے جبکہ تبت کے بہت سے باشندے اپنے جلاوطن روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھے ہوئے ہیں۔

دلائی لامہ کے پیروکاروں کی نظر میں وہ ایک ’زندہ خدا‘ کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ چین انھیں ایک علیحدگی پسند اور اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔

تبت کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ کبھی یہ ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی اور کبھی منگولیا اور چین کے طاقتور حکمرانوں نے اس پر حکومت کی۔

سنہ 1950 میں چین نے تبت پر قبضہ کرنے کے لیے ہزاروں فوجی اس علاقے میں بھیجے۔ تبت کے کچھ علاقوں کو خودمختار علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا، اور باقی علاقوں کو اس سے ملحق چینی صوبوں کے ساتھ ملا دیا گیا۔

لیکن سنہ 1959 میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد 14ویں دلائی لامہ کو تبت چھوڑ کر انڈیا میں پناہ لینی پڑی جہاں انھوں نے جلاوطن حکومت تشکیل دی۔ تبت کی بیشتر بدھ خانقاہیں سنہ 60 اور 70 کی دہائی میں چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران تباہ کر دی گئیں۔

دلائی لامہ

چین اور تبت کا تنازع کب شروع ہوا؟

چین اور تبت کے درمیان تنازعے کی وجہ تبت کی قانونی حیثیت ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ 13ویں صدی کے وسط سے تبت چین کا علاقہ رہا ہے۔ تاہم تبت میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ تبت کئی صدیوں تک ایک آزاد ملک تھا اور چین کا اس پر حق نہیں ہے۔

منگول بادشاہ قبلائی خان نے اپنے شاہی یوان خاندان اور سلطنت کو تبت ہی نہیں بلکہ چین، ویتنام اور کوریا تک پھیلایا تھا۔

پھر سترہویں صدی میں چین کے چنگ شاہی خاندان کے ساتھ تبت کے تعلقات قائم ہوئے۔ 260 برس کے رشتے کے بعد چنگ فوج نے تبت پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تین برس کے اندر اسے تبت سے باہر کر دیا گیا اور 1912 میں دلائی لامہ نے تبت کی آزادی کا اعلان کیا۔

پھر 1951 میں چینی فوج نے ایک بار پھر تبت پر قبضہ کر کے کنٹرول حاصل کر لیا اور تبت سے ایک معاہدے پر دستخط کروا لیے جس کے تحت تبت کی خود مختاری چین کو سونپ دی گئی۔

دلائی لامہ انڈیا چلے گئے اور تبھی سے وہ تبت کی خود مختاری کے لیے کوشاں ہیں۔

لہاسا: ایک ممنوعہ شہر

جب 1949 میں چین نے تبت پر قبضہ کیا تو اسے بیرونی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کر دیا۔ تبت میں چینی فوج تعینات کر دی گئی۔ سیاسی حکومت میں دخل دیا گیا جس کی وجہ سے دلائی لامہ کو بھاگ کر انڈیا میں پناہ لینی پڑی۔

پھر تبت کو چینی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ تبت کی زبان، تہذیب، مذہب اور روایات سبھی کو بتدریج تبدیل کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ کسی باہر سے آنے والے شخص کو تبت اور دار الحکومت لہاسا جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اسے ’ممنوعہ شہر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

غیر ملکی افراد کے تبت آنے پر 1963 میں پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم 1971 میں تبت کے دروازے غیر ملکی افراد کے لیے کھول دیے گئے تھے۔

دلائی لامہ کا کردار

چین اور دلائی لامہ کی تاریخ ہی چین اور تبت کی تاریخ ہے۔

سنہ 1409 میں جے سکھامپا نے جیلوگ سکول کی بنیاد رکھی۔ اس سکول کے ذریعہ بودھ مذہب کی تعلیمات پھلائی جاتی تھیں۔

یہ مقام انڈیا اور چین کے درمیان تھا جسے تبت نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی سکول کے سب سے معروف طالب علم گیندون دروپ تھے۔

گیندون آگے چل کر پہلے دلائی لامہ بنے۔ بودھ مذہب کے پیروکار دلائی لامہ کو بہت اہم مانتے ہیں۔ انھیں رحم اور ہمدردی کے علم بردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دوسری جانب ان کے حامی انھیں رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دلائی لامہ کو بنیادی طور پر مذہبی گُرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لامہ کا مطلب ہوتا ہے گرو۔ لامہ اپنے لوگوں کو سچ کے راستے پر چلنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے سبھی بودھوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

دلائی لامہ

1630 کی دہائی میں اتحاد کے وقت سے ہی بودھ اور تبتی رہنماؤں کے درمیان لڑائی ہے۔ مانچو، منگول اور اوئیرات کے درمیان یہاں اقتدار کے لیے ٹکراوٴ ہوتا رہا ہے۔

آخر کار پانچویں دلائی لامہ تبت کو متحد کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی تبت تہذیبی طور پر بھی مضبوطی سے ابھر کر سامنے آیا۔

تیرہویں دلائی لامہ نے 1912 میں تبت کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ تقریباً 40 برس بعد چین نے تبت پر حملہ کیا۔ چین کا یہ حملہ تب ہوا جب وہاں 14ویں دلائی لامہ کے انتخاب کا عمل جاری تھا۔ تبت کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ چند برس بعد تبت کے عوام نے چینی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی اور تبت کی خود مختاری کا مطالبہ کرنے لگے۔

بغاوت کامیاب نہیں ہو سکی۔ دلائی لامہ کو محسوس ہوا کہ وہ بری طرح چینیوں کے نرغے میں پھنس جائیں گے۔ اسی دوران انھوں نے انڈیا کا رخ کیا۔ دلائی لامہ کے ساتھ بڑی تعداد میں تبتی شہری انڈیا پہنچے۔ یہ 1959 کی بات ہے۔

دلائی لامہ کو انڈیا میں پناہ ملنا چین کو اچھا نہیں لگا۔ اس وقت چین میں ماوٴ زے تنگ کی حکومت تھی۔ دلائی لامہ اور چین کی کمیونسٹ حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی۔ دلائی لامہ کو دنیا بھر سے ہمدردی تو حاصل ہوئی، لیکن اب تک وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

کیا تبت چین کا حصہ ہے؟

چین اور تبت کے تعلقات کے بارے میں کئی اہم سوالات اکثر لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں۔ جیسے کہ کیا تبت چین کا حصہ ہے؟ چین کے کنٹرول سے پہلے تبت کیسا تھا؟ اس کے بعد کیا کیا بدل گیا؟

تبت کی برطرف حکومت کا کہنا ہے کہ ’اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ تاریخ کے مختلف دور میں تبت مختلف غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ منگولوں، نیپال کے گورکھوں، چین کے منچو شاہی خاندان اور انڈیا پر راج کرنے والی برطانوی حکومت، سبھی کا تبت کی تاریخ میں کردار رہا ہے۔ لیکن تاریخ کے دوسرے حصوں میں ایک ایسا تبت بھی ملتا ہے جس نے اپنے ہمسایوں پر طاقت اور رسوخ کا استعمال کیا اور ان ہمسایوں میں چین بھی شامل تھا۔‘

آج کے دور میں دنیا میں ایسا کوئی ایسا ملک تلاش کرنا مشکل ہے جس پر تاریخ کے کسی دور میں کسی غیر ملکی طاقت کا اثر یا قبضہ نہ رہا ہو۔ تبت کے معاملے میں غیر ملکی اثر یا دخل اندازی بہت ہی مختصر عرصے کے لیے رہی تھی۔

جب انڈیا نے تبت کو چین کا حصہ مانا

جون 2003 میں انڈیا نے یہ باضابطہ طور پر قبول کر لیا تھا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔

چین کے صدر جیانگ جیامن کے ساتھ اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد انڈیا نے پہلی بار تبت کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا تھا۔ اس وقت اسے چین اور انڈیا کے رشتے میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

واجپائی اور جیانگ جیامن کے مذاکرات کے بعد چین نے بھی انڈیا کے ساتھ سِکم کے راستے تجارت کی شرط قبول کر لی تھی۔ تب اس قدم کو یوں دیکھا گیا کہ چین نے بھی سکم کو انڈیا کے علاقے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

انڈین اہلکاروں نے اس وقت کہا تھا کہ انڈیا نے پورے تبت کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو چین کا بڑا حصہ ہے۔ انڈیا نے صرف اس حصے کو تسلیم کیا ہے جو تبت کا خود مختار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp