A Pilot’s Degree? EXACT(LY)


ایک تھے نواب اسلم رئیسانی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے جب فرمایا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا جعلی۔ جملہ مفید مطلب تھا، خوب اچھالا گیا۔ پھر 2015 میں نیویارک ٹائمز کے صفحات پر شعیب شیخ نمودار ہوئے اور کوئی 140 ملین ڈالر کی جعلی ڈگریوں کا بین الاقوامی سکینڈل۔ شعیب شیخ ایک آزاد، غیر جانبدار اور محب وطن نیوز چینل بھی چلا رہے تھے۔ تو یہ طے پایا کہ بدعنوان میڈیا سیٹھوں نے ان کے خلاف سازش کی تھی۔ سازش کرنے والوں میں سے ایک تو آج کل جیل میں ہے۔ باقی رہے شعیب شیخ تو انہیں سپریم کورٹ نے جولائی 2018 میں 20 برس قید کی سزا سنائی جو تین ماہ بعد اکتوبر 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی۔ اور اب ہمارے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا ہے کہ قومی ایئر لائن کے ایک تہائی پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ واللہ، ڈگریوں میں ہم نے وہ نام پایا ہے کہ دنیا میں ہماری علم دوستی کی دھوم مچ گئی ہے۔

یقین مانیے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ ہاں، چلو بھر پانی میں ڈوب کے مرنے کو ضرور دل چاہا جب رسوائی کا یہ افسانہ سی این این پہ بھی نشر ہوگیا۔ ہم نے دنیا کی اپنے گرد اٹھائی جانے والی دیواروں کو اور بلند ہوتے دیکھا گویا ایک اور روزن اپنے بچوں پہ بند کر دیا۔

لیکن کیا یہ سب راتوں رات ترتیب دی گئی داستان ہے ؟ کیا یہ وہی نہیں جو بویا تھا؟ ہمارے خیال میں تو یہ وہ خار ہیں جن کی آبیاری برسہا برس ہوئی ہے اور اب ایسی بہار جوبن پہ ہے جس کے شعلوں کی لپٹیں آسمان کو باتیں کرتی ہیں۔

پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ ایک ہی ہے، نظریہ ضرورت ؛ قواعد ضوابط کی دھجیاں اڑا کے رکھ دینا، نا اہل کو اہل سمجھ کے قبول کر لینا، سچائی اور ایمان داری کو خرافات سمجھنا، انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر دینا! ڈنگ ٹپاؤ! اپنا بندہ ہے! کہیں فٹ کر لیں جی، کی تکرار کون نہیں جانتا!

بہت برسوں پہلے کی ایک یاد آ گئی جب ہم کچھ زیادہ نادان ہوا کرتے تھے۔ پیرس سے اسلام آباد آنے والے پی آئی اے کے جہاز پہ ہم ننھے حیدر کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ شومئی قسمت کہ پائلٹ ہمارے میاں صاحب کے احباب میں سے نکلے۔ فضا میں بلند ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ائیر ہوسٹس آئیں اور ہمیں پائلٹ کی طرف سے کاک پٹ میں آنے کی دعوت دی۔ حیدر میاں خوشی سے اچھل پڑے اور ہم ان خاتون کی ہمراہی میں بمعہ حیدر کاک پٹ تک جا پہنچے۔ پائلٹ اور کو پائلٹ کے پیچھے فلائٹ انجینئر موجود تھے.۔ ساتھ والی خالی نشست ہم نے سنبھال لی۔ سامنے سکرین سے باہر تاریک رات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا اور اندر مختلف پینلز پہ جلتی بجھتی روشنیاں تھیں۔ تھوڑی دیر میں ائیر ہوسٹس نے انتہائی پر تکلف کھانا ہمارے سامنے چن دیا جو شاید فرسٹ کلاس والوں کے بھی نصیب میں نہیں تھا۔ کھانے کے بعد کافی کا دور چلا اور جب ہم واپس آئے تو سب مسافر ہمیں بے طرح گھور رہے تھے۔

اس دور میں تو ہم اس ایڈوینچر سے بہت محظوظ ہوئے لیکن اب شرمندگی گھیر لیتی ہے کہ قواعد کی اس قدر خلاف ورزی اور فلائٹ سیفٹی کی دھجیاں اڑانے میں ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔

ایک سوال بھی سر اُٹھاتا ہے کہ معمولی جان پہچان پہ ہم اس سلوک کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں تو اگر ہماری جگہ کوئی نامور شہرت یافتہ سلیبرٹی ہوتا تو کیا کچھ نہیں ہوتا ہو گا؟

ڈگری اور امتحان ایک گورکھ دھندا ہیں جن کی پیچیدگیاں ہر کوئی سمجھنے سے قاصر ہے۔ فرض کیجیے سند جعلی نہ بھی ہو، اور امتحان میں کامیابی کے بعد ہی حاصل کی ہو لیکن کیا متمحن صاحب نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رشوت اور سفارش کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کی ہوں گی ؟ اگلا سوال اس سے بھی زیادہ دل دکھا دینے والا ہے۔ کیا متمحن صاحب اس قابل تھے کہ صحیح سے امیدوار کی قابلیت جانچ سکتے؟ کیا خبر وہ بھی کسی چور دروازے کی پیداوار ہوں۔

ٹریننگ کی بات چلے تو سرجنز اور پائلٹس کا اکثر موازنہ کیا جاتا ہے کہ دونوں کو کبھی نہ کبھی ایسی ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں صرف ان کی اہلیت اور بروقت قوت فیصلہ ہی انسانی جان کو بچا سکتی ہے۔

مریض ایمرجنسی میں آیا ہے، نبض ڈوب رہی ہے۔ احتمال ہے کہ اندرونی اعضاء میں کہیں خون کا اخراج ہو رہا ہے۔ پیٹ کب کھولنا ہے؟ کتنی بوتل خون دینا ہے؟ اندر سے کس عضو کو کیسے کاٹنا ہے اور کتنا کاٹنا ہے؟ ٹانکا کونسا لگانا ہے؟ دھاگہ کونسا استعمال کرنا ہے؟.اس سب میں کاغذ کا ٹکڑا کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔

جہاز کو اوپر اٹھانا ہے یا نیچے لانا ہے؟ لینڈنگ سے پہلے کس رخ سے نیچے آنا ہے؟ لینڈنگ کے وقت پہیوں کو کس آہستہ روی سے سٹرپ کو چھونا ہے؟ بیلی لینڈنگ سے پہلے پٹرول گرانا ہے؟ انجن فیل ہونے کی صورت میں دوسرے انجن کو کیسے استعمال کرنا ہے؟ یہ سب بھی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بتا پاتا۔ میاں صاحب کے پائلٹ ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سی ایسی رمزیں بھی جان گئے جو صرف گھر کے بھیدی کو سمجھ آتی ہیں۔ ہر سفر کے دوران جونہی جہاز کے پہیے زمین کو چھوتے، پائلٹ کی قابلیت کے بارے میں ایک نعرہ مستانہ بلند ہو جاتا۔

دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو اپنی ڈگری کا دفاع تمام عمر کورسسز اور ورکشاپس کر کے کرنا پڑتا ہے۔ کیا نئی دوائی بنی؟ نئی ریسرچ میں کیا دریافت ہوا؟ کیا جدید تکنیک آئی؟ کتنے آپریشن کیے؟ کس میں کیا خرابی ہوئی؟ یہ سب وہ رنگ ہیں جو ڈگری میں مسلسل نہ بھرے جائیں تو ڈگری ایک بوسیدہ کاغذ بن جایا کرتی ہے۔

پائلٹس کی بنیادی ٹریننگ فلائنگ سکول میں کی جاتی ہے جہاں دو سو گھنٹے فلائنگ کے بعد انہیں ایک بنیادی لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کونسا جہاز اڑانا ہے؟ اس کی ٹریننگ حاصل کی یا نہیں؟ ایمرجینسی سے نمٹنے کی صلاحیت کس درجے کی ہے؟ یہ سب اس لائسنس سے اوپر کی باتیں ہیں۔ اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے پائلٹس مزید ٹریننگ اور سالانہ چیکس کی بھٹی سے گزرتے ہیں؟ یا ائر لائن کی شاہانہ نوکری کے لالچ میں کچی پکی سند تھامے ہزاروں لوگوں کی زندگی سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں؟ وہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی!

پائلٹس اور سرجنز کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی بہت اہم ہے۔ ہم ابھی تک آپریشن ڈے سے پہلے والی رات جلد سونے کی کوشش کرتے ہیں کہ نیند کی کمی بہت سے حواس پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ عمر رسیدہ، مضمحل، حواس باختہ، موٹاپے، شوگر، بلڈ پریشر اور عارضہ قلب کے شکار ڈاکٹر اور پائلٹ تو وہی کریں گے جو ہو رہا ہے۔

یقین جانیے، دل دکھتا ہے یہ کہتے ہوئے لیکن ہو گا ابھی بھی کچھ نہیں۔ نااہل کا چناؤ، اصول و ضوابط سے پہلو تہی اور سمجھوتے کا سم ایک دن کی کہانی نہیں۔ یہ میٹھا اور بے حس کر دینے والا زہر ہلاہل بیس کروڑ کی رگوں میں گزشتہ ستر برس میں اتارا گیا ہے، ہر شعبے اور ہر درجے میں آہستہ آہستہ سرایت کیا ہے۔ سو آپ بھی ڈنگ ٹپائیے اور ٹھنڈ ڈاٹ کام پر کلک کیجیے۔

بین الاقوامی برادری میں ہم تنہا تھے، تنہا ہیں اور اب کچھ مزید تنہا ہو جائیں گے۔ ہمارا پاسپورٹ دنیا کے آخری تین میں ایسے ہی نہیں گنا جاتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments