انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع: لداخ کے خطے میں ایسا کیا ہے جو وہاں تنازعے کو منفرد بناتا ہے؟


چین

لداخ اپنی قدرتی خوبصورتی اور پیچیدہ زمینی خدوخال کی وجہ سے مشہور ہے لیکن آج کل یہ خطہ انڈیا اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنازع کا مرکز ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر خبروں میں ہے۔

گذشتہ سال اگست میں انڈیا کی جانب سے اس خطے کا سٹیٹس تبدیل کر دیا گیا۔ لداخ کی سرزمین یہاں موجود جھیلوں، برف پوش پہاڑوں اور تنگ گزرگاہوں کی وجہ سے منفرد قرار دی جاتی ہے۔

اس ہمالیائی خطے کا محل وقوع اور دیگر زمینی حقائق سمجھے بغیر آپ کے لیے انڈیا اور چین کے درمیان جاری تنازعے کی تفصیلات کو سمجھنا قدرے مشکل ہوگا۔

اگر تاریخ کی بات کی جائے تو لاکھوں برس قبل نیو ٹیتھس اوقیانوس سے بلند ہونے والی دیو ہیکل لہریں اس مقام سے ٹکرائیں جسے آج کے دور میں تبت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ وہ قدیم دور تھا جب انڈین پلیٹ یا انڈین براعظمی خطہ روئے زمین پر اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وادی گلوان: سیٹلائٹ تصاویر میں انڈین سرحد پر ’چینی تعمیرات‘

لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

چین اور انڈیا کے سرحدی تنازع میں تبت کا کیا کردار ہے؟

اکسائی چِن

انڈیا کے شمالی علاقے دہرہ دون میں واقع ‘ودیا انسٹیٹیوٹ آف ہمالین جیالوجی’ سے وابستہ سائنسدان پردیپ شریواستو نے مجھے بتایا کہ ‘چالیس سے پچاس لاکھ سال قبل انڈین پلیٹ معرض وجود میں آئی اور اس کا ایشیائی پلیٹ سے ٹکراؤ ہوا اور چند دیگر واقعات وقوع پذیر ہوئے۔’

اس ٹکراؤ کے نتیجے میں انڈین پلیٹ نچلی سطح پر آ گئی اور ایک پورا سمندر اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں اس خطے میں جھیلیں اور دریا معرض وجود میں آئے، جو کہ اس سے پہلے یہاں نہیں تھے۔ اسی کے ساتھ نہ ختم ہونے والا پہاڑوں کا ایک سلسلہ بھی بنا جو کہ آج تک اس خطے میں موجود ہے۔

پردیپ شریواستو نے مزید بتایا: ‘زمینی پلیٹوں کے اس ٹکراؤ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ایک بلند و بالا ہمالیہ پہاڑوں کا سلسلہ وجود میں آیا جس کے باعث مون سون کی ہوائیں اس علاقے میں داخل ہونا بند ہو گئیں۔ اس کے نتیجے میں سرسبز و شاداب لداخ کا علاقہ ایک خشک اور شدید یخ بستہ صحرا میں بدل گیا۔ بارش اب ان خشک پہاڑوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔’

اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس خطے کی ابتدا ہی ٹکراؤ اور مقابلے کی صورت میں پڑی۔ اور اُس وقت سے اب تک لداخ تصادم کا ایک منفرد مرکز ہے۔

یہ باتیں اس وقت سے متعلق ہیں جب تاریخ کی ابتدا بھی نہیں ہوئی تھی، اب آئیے اس خطے کی تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں۔

لداخ

کھلاڑی بدل چکے ہیں

سنہ 1834 میں ڈوگرا جنگجو گلاب سنگھ نے لداخ پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کو رنجیت سنگھ کے زیر انتظام سکھ سلطنت میں شامل کر لیا۔

تاریخ دان کرسٹوفر سنیڈن نے اپنی کتاب ‘انڈر سٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیریز’ میں گلاب سنگھ کے لداخ پر قبضے کو ‘انتہائی اہم کامیابی’ قرار دیا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے پر قبضے نے رنجیت سنگھ کو مقامی بھیڑ بکریوں سے حاصل ہونے والی اون کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کے قابل بنا دیا۔

اس کے بعد یہ علاقہ تھوڑے عرصے کے لیے تبت اور چینی فورسز کے زیر قبضہ رہا تاہم جلد ہی یعنی سنہ 1842 میں اسے واپس لے لیا گیا اور جب رنجیت سنگھ سنہ 1846 میں جموں کمشیر کے مہاراجہ بنے تو انھوں نے اس علاقے کو اپنی سلطنت کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔

اس واقعے کے 101 سال بعد نئی بننے والی دو ریاستوں، پاکستان اور انڈیا’ میں لداخ پر قبضے کو لے کر جنگ ہوئی۔

سنہ 1950 سے لے کر اب تک انڈیا اور چین اس خطے کی ملکیت پر آمنے سامنے نہیں آئے تھے۔

میں نے انڈیا کی فوج کے سابق نائب آرمی چیف لفٹینینٹ جنرل ایس کے پٹیال جو لداخ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور سنہ 2018 میں ریٹائر ہو چکے ہیں سے ہوچھا کہ اب جب میڈیا پر دپسانگ، دولت بیگ اولڈی، گلوان، پنگونگ ٹسو، فنگر ایریا اور دمچوک سمیت دیگر علاقوں کے نام سامنے آنے کے بعد انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی میں اضافے کے خیالات کو تقویت مل رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں لداخ کس طرح نظر آتا ہے؟

لداخ

انھوں نے بتایا کہ ‘اگر آپ انڈیا میں کھڑے ہو کر چین کی جانب دیکھتےہیں تو مشرقی لداخ آپ کو ایک پیالہ کے مانند لگتا ہے جبکہ کہ بائیں جانب قراقرم کا سب سے بلند مقام ہے جو دولت بیگ اولڈی اور گلوان کی وادی ہے۔

جبکہ اس سے آگے پینگونگ کی جھیل ہے۔ اور جیسے جیسے آپ دائیں جانب آگے بڑھتے ہیں تو آپ نیچائی کی طرف آتے ہیں اور دم چوک تک علاقہ کافی سطحی ہے مگر دمچوک کے بعد دوبارہ چڑھائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے پیالے میں ہوتا ہے۔’

جنرل پٹیال نے لیہ میں انڈین فوج کی 14ویں کور کی سربراہی کر رکھی ہے، یہ وہ کور ہے جس کا مقصد چین اور پاکستان دونوں کے خلاف انڈیا کا دفاع کرنا ہے۔

لداخ میں فوج کی تعیناتی اور سرگرمیوں میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟

گلوان

انھوں نے بتایا کہ ‘اس ضمن میں یہ کہنا کافی ہو گا کہ مشرقی لداخ کے چند علاقوں میں فوجی تعنیاتی اتنی ہی مشکل ہے جتنی سیاچن گلیشئر پر! درحقیت مجھے یاد ہے کہ دولت بیگ اولڈی کے علاقے میں جہاں موسم سرما یا گرما دونوں میں تیز اور سرد ہوا کے باعث آپ کھلی جگہ پر چند منٹ سے زیادہ کھڑے نہیں ہو سکتے۔’

لفٹینینٹ جنرل پٹیال نے بتایا کہ ‘ لداخ کی چند وادیوں کے قریب کے علاقوں میں خصوصاً موسم گرما میں رہنا بہت مشکل ہوتا ہے جیسا کہ وادی سندھ میں۔ وادی شیوک وادی سندھ کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔

اتنی بلندی پر تمام چیزوں سمیت انسانی برداشت کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے وزن اٹھا کر چلنے کی صلاحیت، دفاعی خندقیں اور مورچے کھودنے میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ سارا علاقہ پتھریلا ہے۔ جہاں عام حالات میں اس کام میں چند گھنٹے لگتے ہیں یہاں اس کام میں سات سے آٹھ دن لگ سکتے ہیں۔ وہاں مشینری لے جانا آسان نہیں ہے۔’

جب میں نے خطے کی ٹوپوگرافی یعنی خدو خال کے بارے میں سابق لیفٹینٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا سے پوچھا تو انھوں نے اس کو ایک دھوکہ قرار دیا۔ مگر کیوں؟

ان کا کہنا تھا کہ ‘مثال کے طور پر آپ شمالی علاقے میں دپسانگ کے میدانی علاقے ہی لے لیں، وہاں ایک پل کے لیے آپ سمجھیں گے کہ یہ ملک کے دیگر میدانی علاقوں ہی طرح کا علاقہ ہے اور آپ آرام سے اپنی کار وہاں چلا سکتے ہیں لیکن درحقیقت آپ 16 سہ 17 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں اور دوران ڈرائیونگ اتنی بلندی میں معمولی سی کی جانے والی کوتاہی آپ کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔’

دپسانگ کے میدان

انڈیا کا سب سے مشکل ایڈوانس لینڈنگ گراؤنڈ دولت بیگ اولڈی کے علاقے میں ہے۔

انڈین فضائیہ یہاں کے فوجی اڈے کو دنیا میں سب سے بلند فوجی اڈہ قرار دیتی ہے جو 16300 فٹ بلندی پر ہے اور گذشتہ ایک دہائی میں یہاں متعدد بار جہازوں کو لینڈ کروایا گیا ہے جو انڈین فضائیہ کی مہارت ظاہر کرتا ہے۔

جنرل ہوڈا کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس خطے میں جیسے جیسے آپ جنوب کی جانب بڑھتے ہیں تو آپ کا سامنا وادی گلوان جیسے علاقوں سے ہوتا ہے جہاں ایک تنگ دریا بہتا ہے اور یہ وادی بھی تنگ ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو آپ وادی سندھ میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ دریا سندھ بڑا ہے تو یہ وادی بھی کافی کشادہ ہے۔ جبکہ دمچوک کا علاقہ اس سے بھی آگے ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘لداخ کے پہاڑوں کی اپنی شناخت ہے۔ یہ کوئی عام پہاڑ نہیں ہیں۔ یہاں وادی کے میدانی علاقے سے پہاڑ کی چوٹی تک جتنا فاصلہ ہے اتنا کہیں اور نہیں ملتا۔ یہ پورا علاقہ بلندی ہر واقع ہے۔ اگر پانگونگ ٹسو جھیل کی بات کی جائے تو وہ 14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ کارگل کے چند علاقوں میں ہم دراندازوں کے خلاف اس بلندی پر لڑے تھے۔

فنگر کمپلکس اس جھیل کے شمال پر ہے۔ یہ دور سے دیکھنے میں چھوٹی پہاڑیاں اور ٹیلے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی بلندی جھیل سے بھی زیادہ ہے۔

سرحد کے اس پار کا علاقہ کیسا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ‘چین کی طرف کا تبتی سطح مرتفح نسبتاً میدانی ہے، لیکن بلندی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ‘

مجھے فنگر ایریا نام اور اس علاقے کے بارے میں تجسس تھا۔

جنرل پٹیال نے بتایا کہ ‘وہ پہاڑی سلسلہ جو پانگونگ جھیل کے شمالی کنارے کی جانب ہے اور جہاں ہم گشت کرتے ہیں اور وہاں سے جب جھیل کی جانب دیکھا جاتا ہے تو یہ ٹیلے اور پہاڑیاں ہمیں اپنی انگلیوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ اس لیے اس علاقے کو فنگر ایریا کہا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی کل تعداد آٹھ ہے اس لیے ہم نے ان کو آئی ایٹ کا نام دیا ہے۔

یہاں بات یہ ہے کہ ہمارے پاس فنگر چار تک سڑک ہے جبکہ چین کے پاس فنگر آٹھ تک سڑک بنی ہوئی ہے۔ تاہم یہ علاقے متنازع ہے اس لیے ہم چینی فوجیوں کو وہاں تک آنے نہیں دیتے اور ہمیں بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

لیکن چین اور انڈیا دونوں ایک اور بات پر متفق ہیں۔ ہوڈا کہتے ہیں کہ ‘ہم دونوں اس علاقے کو ‘فنگر ایریا’ کے نام سے ہی پکارتے ہیں اور اس کو بہت برس ہو چکے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp