افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈروں کے قتل اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بڑھتے تشدد میں کیا تعلق ہے؟


فائل فوٹو

فوجی آپریشن میں میران شاہ بازار مکمل طور پر تباہ اور ویران ہو گیا تھی

یہ افغانستان کے صوبے کنڑ کے علاقے منورہ کی بات ہے جہاں ایک شخص کا چند روز پہلے قتل ہوتا ہے۔

قریبی ذرائع سے اس شخص کی شناخت کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم رکن قاری عثمان عرف منصور محسود کے نام سے ہوتی ہے اور یہ شہریار محسود کے قریبی ساتھی بتائے جاتے تھے۔

تاہم افغانستان میں سرکاری سطح پر حکام خاموش ہیں۔

ایک اور واقعہ، ایک اور شدت پسند کا قتل۔ علاقہ ہے صوبہ ننگر ہار، ضلع مہمندرہ اور دیہات بسول۔ یہ واقعہ 13 جون کو پیش آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کمانڈر شہریار محسود دھماکے میں ہلاک

کیا ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان ’فرار‘ ہو گئے؟

’طالبان کے امیر ملا منصور کا کراچی میں کاروبار‘

چند دنوں بعد ایک مرتبہ پھر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر نشانہ بنے۔ کمانڈر عزیزاللہ عرف شامزئی بابا کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

ان واقعات کے بارے میں افغان حکومت، پاکستان حکومت اور طالبان نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے قتل کی ذمہ داری کسی نے قبول کی ہے۔

یہ واقعات سرحد کے اُس پار یعنی افغانستان میں ہوئے لیکن تشدد کے واقعات سرحد کی اس جانب یعنی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی پیش آئے ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے ان واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں تشدد کے تین واقعات پیش آئے ہیں جن میں پاکستانی فوج کے کیپٹن سمیت دو فوجی اہلکار اور چار شدت پسند ہلاک جبکہ دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔

سرحد کی دونوں جانب بڑھتے ہوئے ان واقعات میں کیا کوئی تعلق ہے یا دونوں ممالک میں پیش آنے والے یہ واقعات اپنے اپنے علاقوں کے حالات کے مطابق پیش آ رہے ہیں۔

اس بارے میں ہم نے چند تجزیہ کاروں سے بات کی لیکن پہلے ہم ذکر کرتے ہیں افغانستان میں ہونے والے دو کمانڈروں کے قتل کا جس کا ذکر میڈیا میں کم ہی نظر آیا ہے۔

قاری عثمان عرف منصور محسود کون تھے؟

طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ قاری عثمان عرف منصور محسود یا ملا منصور کے نام سے جانے جاتے تھے اور یہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جس کی قیادت شہریار محسود کرتے تھے اس کے رکن تھے۔

طالبان ذرائع کے مطابق قاری عثمان بارودی سرنگیں نصب کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے لیکن شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد وہ افغانستان چلے گئے تھے۔

طالبان ذرائع نے بتایا کہ قاری عثمان عرف منصور محسود اپنی تنظیم کے دھڑے کے سربراہ شہریار محسود کی ہلاکت کے بعد اپنی تنظیم کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھے۔

شہریار محسود اس سال فروری میں افغانستان کے صوبے کنڑ میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تنظیم کے اندر اختلافات کچھ عرصے سے جاری تھے۔

کمانڈر عزیزاللہ عرف شامزئی بابا

قاری منصور کی ہلاکت سے چند روز پہلے صوبہ ننگر ہار کے ضلع مہمندرہ میں کمانڈر عزیزاللہ عرف شامزئی بابا بسول کے مقام پر قتل کر دیے گئے تھے۔ افغان ذرائع ابلاغ میں ان کی خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ کمانڈرعزیزاللہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے لیے کراچی میں بھی کام کر چکے ہیں اور وہ تنظیم کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں مٹہ سے تھا اور اطلاعات کے مطابق وہ سال 2017 میں افغانستان چلے گئے تھے۔

سرکاری سطح پر یا طالبان نے باضابطہ طور پر ان کی ہلاکت کے حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ کمانڈر عزیز اللہ خود کش بارودی جیکٹس اور دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

یہ قتل اور ان سے پہلے تین قتل بھی معمہ رہے ہیں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق اس سال فروری اور جون میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے تین اہم رہنماؤں کے قتل سے تنظیم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ان تینوں رہنماؤں کے قتل اب تک معمہ بنے ہوئے ہیں اور یہ واضح نہیں ہو سکا کہ افغانستان میں ان کے قتل کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔

ان رہنماؤں میں شیخ خالد حقانی شامل تھے جو ایک وقت میں ٹی ٹی پی کے نائب امیر رہے اور تنظیم کی پالیسی ساز شوریٰ کے رکن بھی رہے تھے۔

اس کے علاوہ ان رہنماؤں میں شہر یار محسود کا نام بھی تھا جنھوں نے مبصرین کے مطابق تنظیم کے فیصلوں سے مخالفت کی تھی اور تنظیم کے اندر اپنا دھڑا قائم کر دیا تھا جسے شہریار محسود گروپ کہا جاتا ہے۔

شہریار محسود کو بھی صوبہ کنڑ میں ایک دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ تنظیم کے مستقبل کے سربراہ ہو سکتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

اس کے علاوہ قاری سیف یونس المعروف سیف اللہ پشاوری بھی ان تین رہنماؤں میں شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق قاری سیف اور شیخ خالد کابل میں ہلاک کر دیے گئے تھے اور ان کی ہلاکت تاحال ایک معمہ ہے۔

شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوجی

پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟

ادھر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور یہ کوئی تین سے ساڑھے تین سال تک جاری رہا۔

ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کے کچھ عرصہ بعد تک حالات معمول کے مطابق رہے لیکن گذشتہ سال تشدد کے واقعات میں اضافہ تشویشناک رہا ہے۔

مقامی طور پر ان واقعات پر نظر رکھے ہوئے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 میں صرف شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے 51 واقعات پیش آئے جبکہ اس دوران 80 دیسی ساختہ بموں کے دھماکے ہوئے تھے۔

اسی طرح سیکیورٹی فورسز اور دیگر افراد پر حملوں کی تعداد 20 تک بتائی گئی ہے۔ اس سال اب تک 20 سے 25 تشدد کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان واقعات کے باوجود حالات اب بڑی حد تک قابو میں ہیں اور لوگ آزادانہ گھروں سے باہر جا سکتے ہیں یہاں تک کہ رات کے وقت بھی لوگ بازاروں میں آزادی سے گھومتے ہیں۔

سرکاری سطح پر کہا گیا ہے کہ اکا دکا واقعات کبھی کبھار پیش آ جاتے ہیں اور ان پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔ مقامی سطح پر لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت جب ہر طرف شدت پسندوں کا راج تھا اب حالات قدرے بہتر ہیں۔

پھر آخر یہ تشدد ہو کیوں رہا ہے؟

پاکستان سے افغانستان فرار ہو جانے والے ان شدت پسند رہنماؤں کے قتل کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ اب تک واضح نہیں ہو سکے۔

اس بارے میں متعدد سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا یہ خطے میں پالیسی کی تبدیلی ہے یا افغانستان میں بدلتے حالات کی وجہ سے وہ سخت گیر مؤقف جس کے باعث مسلح افراد اپنے طور پر کہیں یکجا ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں اور کیا افغانستان اور پاکستان میں تشدد کے واقعات میں کوئی تعلق بنتا ہے یا دونوں ممالک کے اپنے اپنے حالات ہیں۔

پاکستان آرمی

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے باچا خان ٹرسٹ کے سربراہ پروفیسر خادم حسین سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے درمیان بھی ایسے گروہ ہیں جو اپنی کارروائیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی کے نام سے نیٹ ورک تقریباً ٹوٹ چکا ہے اور قیادت بھی زیادہ متحرک نہیں ہے ایسی صورتحال میں جو لوگ اب ہیں وہ افغان طالبان کے ناراض گروپ کے ساتھ مل کر نیٹ ورکنگ کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جائے۔

اس کے لیے ان کا آزمایا ہوا طریقہ یہی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سے خوف پھیلائیں اور لوگوں کی دشمنیوں کو استعمال کرتے ہوئے دھماکے کیے جائیں اور اس طریقے سے اپنے لیے فنڈز اکھٹے کیے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان میں تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور یہ اس نیٹ ورکنگ کا سلسلہ ہی نظر آتا ہے۔

خادم حسین نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کا براہ راست تعلق اگر نہیں ہو لیکن ایسے گروہ یا دھڑے بھی ہیں جو ایک دوسرے کو ماڈل سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ماضی کے تجربات دیکھے جائیں تو مستقبل میں ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں اتحاد کر سکتے ہیں لیکن اب تک کے حالات کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے طور پر کر رہے ہیں۔

اس بارے میں عسکری امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کے مطابق پاکستان میں صرف شمالی وزیرستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں ایک گروہ زیادہ متحرک ہے اور اس میں بظاہر مقامی طور پر سیاسی صورتحال سیکیورٹی فورسز کے لیے رکاوٹ ہے۔

انھوں نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کا ایک دھڑا زیادہ متحرک نظر آتا ہے جبکہ باقی دھڑے آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اس لیے اس موقع پر حالات بہتر کیے جا سکتے ہیں۔

انھوں نے افغانستان میں تشدد کے واقعات کے بارے میں کہا کہ افغانستان میں مختلف دھڑوں کی آپس کی دشمنیوں کی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور ان میں کوئی ایجنسی یا دیگر اداروں کی کارروائی نظر نہیں آتی۔

محمود شاہ کا موقف تھا کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات اور پاکستان میں ہونے والے واقعات کا براہ راست کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp