منور حسن صاحب:شخصیت و اثرات


سید منور حسن صاحب بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے۔ منور حسن صاحب کے افکار اور غیر محتاط انداز گفتگو سے اکثر اختلاف ہوتا رہا اور انہوں نے کئی دفعہ واقعتاً اپنے بیانات سے لوگوں کو حیران، پریشان اور مایوس بھی کیا لیکن ان کی شخصیت کے چند پہلو بے مثال اور متاثر کن تھے۔

وہ ایک مخلص سیاسی کارکن تھے۔ پہلے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے رہنما تھے تو بھی مکمل یکسوئی اور دیانتداری کے ساتھ سرخ انقلاب کے لیے کمربستہ رہے۔ پھر دائیں بازو میں آئے اور وہ بھی سرخ انقلاب کی مکمل مخالف تنظیم جماعت اسلامی کے رہنما اور بعد میں مرکزی امیر بنے تو بھی کامل یکسوئی، خلوص اور ثابت قدمی کے ساتھ ”اسلامی انقلاب“ کے لیے زندگی وقف کردی۔

آپ ایک نڈر، بے باک اور سیدھے سادے انسان تھے۔ جو کچھ بھی ٹھیک نظر آیا ڈنکے کی چوٹ پر اس کا برملا اظہار کیا اور کسی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ فوج کے خلاف بھی دھڑلے سے بات کی اور صحافیوں سے بھی الجھتے دکھائی دیے۔ حکیم اللہ محسود زندہ تھے تو ان کو میڈیا کا پیدا کردہ خیالی کردار قرار دیا اور ان کے وجود کے ہی منکر رہے۔ وہ مر گئے تو انہیں شہید کہہ دیا۔

آپ ایک دیانت دار درویش منش انسان تھے۔ سادہ زندگی گزار کر چلے گئے۔ فقر سے ان کو عشق تھا۔ حتیٰ کہ بیٹی کو شادی پر تحفے میں تقریباً ترپن لاکھ روپے کے تحفے تحائف ملے تو ان سب کو بیٹی سے مشورے کے بعد یہ کہتے ہوتے جماعت کے بیت المال میں جمع کروا دیا کہ یہ منور حسن کی نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی کی بیٹی کو ملے ہیں اور اس پر جماعت کا حق ہے۔

اجتماعات کے موقع پر عام کارکنوں کے ساتھ سوتے جاگتے۔ تصنع سے کوسوں دور تھے۔

ان کی شخصیت و افکار کا ایک اور امتیازی وصف گرم مزاجی، جذباتی پن اور انتہاپسند سوچ تھی۔ عام طور پر بڑے نستعلیق، خوش خلق اور نفیس انسان تھے مگر سیاست کے میدان میں خوئے دلنوازی لازمی صفت سمجھی جاتی ہے جبکہ آپ گرم مزاج ایسے تھے کہ بڑے بڑے صحافیوں سے براہ راست پروگراموں میں الجھتے رہے بلکہ ایک دو موقعوں پر پروگرام ہی چھوڑ کر چلتے بنے۔ ان کی یہ پہچان ان کے پیش رو قاضی حسین احمد مرحوم سے بالکل مختلف تھی جو ہر مخالف نکتہ نظر کو خندہ پیشانی سے سننے اور خوئے دلنوازی کے لیے مشہور تھے۔

مجھے ذاتی طور پر ان سے ایک دو دفعہ بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ 1996 میں آپ قیم جماعت تھے اور مردان آئے ہوئے تھے۔ ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم نجم الدین اربکان پاکستان کے دورے پر تھے۔ جماعت اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مرحومہ کے خلاف میدان میں تھی۔ اربکان جماعت کے اکابرین سے بھی ملے تھے۔ اس وقت کہا جا رہا تھا حکومت نے اربکان کے ذریعے قاضی صاحب کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے پوچھا کیا اربکان نے جماعت کو حکومت کے خلاف تحریک روکنے کا کہا ہے۔ منور حسن صاحب نے جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ سوال کیا تو بس یہی کہا۔ ”نہیں تو۔ بھلا وہ ایسا کیوں کہتے۔“

تقویٰ کا نمونہ تھے۔ میں نے ایک دفعہ ان کے ساتھ مردان میں رات بسر کی تھی۔ دیر تک جاگتے رہے۔ ایک بجے کے بعد سو گئے مگر چار بجے پھر تہجد کے لیے اٹھتے دیکھا۔ ان کی نماز خشوع و خضوع کا نمونہ تھی۔ للٰہیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

دہشت گردی، طالبان اور پاکستان میں مسلح جہاد کے حوالے سے ان کے خیالات سے مجھے اتفاق نہیں رہا۔ ان کے خلاف کالم بھی لکھے۔ خصوصاً ریاست اور باغیوں کو مساوی حیثیت دینے بلکہ اکثر باغیوں کو ریاست پر بھی فوقیت دینے کی ان کی روش پر تنقید بھی کی لیکن بہرحال انہوں نے جو کچھ بھی کہا مکمل اخلاص کی بنیاد پر کہا اور اسے بہت سوں کی طرح دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا۔

جماعت اسلامی ان کی موت سے ایک اور ایسے مخلص کارکن سے محروم ہو گئی جو جماعت کے کام اور نام کو اپنے تجارت و کاروبار اور ذاتی شہرت و عزت میں اضافے کے لیے استعمال نہیں کیا کرتا تھا۔

ان کی رحلت جماعت کے لیے ایک عظیم سانحہ اور قوم و ملک کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ پرانے بے لوث، دیانت دارانہ اور مستحسن طرز سیاست کا ایک اور کامل نمونہ پاکستان سے رخصت ہو گیا۔

اللہ تعالٰی ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کے افکار و نظریات اور کردار کے اچھے اثرات ہمارے معاشرے پر جاری رکھے اور برے اثرات سے بچائے رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments